پاک سرزمین پارٹی کے چیئرمین مصطفی کمال نے گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد پر سرجیکل اسٹرائیک کرتے ہوئے کرپشن سے لے کر سازشیں کرنے تک کے سنگین الزامات لگائے ہیں۔گورنر نے نہ صرف تمام الزامات کی تردید کی بلکہ جوابی حملہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ مصطفی کمال کی سیاسی ناکامی کا ردعمل ہو سکتا ہے۔
مصطفی کمال کیوں اپنے نئے سیاسی سفر میں پرانے ساتھی کو ایک رکاوٹ سمجھ رہے ہیں اور کیوں عشرت العباد انہیں ناکام محسوس کررہے ہیں؟۔ گورنر العباد پر اچانک حملے نے بہت سے لوگوں کو حیران کردیا ہے لیکن اس کا زیادہ تعلق ایم کیو ایم میں ہونے والی نئی تقسیم کے ساتھ ہے، جن میں سے ایک کی قیادت لندن سے ندیم نصرت کے پاس اور دوسری کی پاکستان میں ڈاکٹر فاروق ستار کے پاس ہے۔
سابق سٹی ناظم نے گورنر پر پی ایس پی میں لوگوں کو شامل ہونے سے روکنے کا الزام لگایا ہے. انہیں شبہ ہے کہ ایک طرف تو ایم کیو ایم پاکستان کی تشکیل میں گورنر کا ہاتھ ہے اور دوسری جانب انہوں نے ایم کیو ایم لندن کے ساتھ اپنے رابطوں کو بھی قائم رکھا ہوا ہے۔
ادھر ڈاکٹر عشرت نے مصطفی کمال کی مایوسی کو پی ایس پی کو موثر بنانے میں ان کی سیاسی ناکامی سے منسلک کیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب یہ تینوں الطاف حسین کے ساتھ تھے تب بھی کمال اور فاروق ستار دونوں ہی ایک سے زیادہ وجوہات کی بنا پر ڈاکٹر العباد سے غیر مطمئن تھے۔
کمال تو 2013 ء کے انتخابات کے بعد خود ہی ایم کیو ایم سے الگ ہوگئے جب کہ ایم کیو ایم نے 2015 میں ڈاکٹر فاروق ستار کی جانب سے گورنر کے خلاف ‘چارج شیٹ کے بعد ڈاکٹر عشرت العباد سے لاتعلقی اختیار کرلی کہ وہ پارٹی کے لئے کام نہیں کررہے اور پارٹی کے مفاد کی دیکھ بھال کرنے میں ناکام ہوگئے ہیںتاہم، ڈاکٹر عشرت العباد تمام حکمرانوں اور جاسوس ایجنسیوں کے سربراہوں کی گڈ بک میں رہے۔
ریٹائر جنرل پرویز مشرف سے لے کر موجودہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف تک، سابق صدر، آصف علی زرداری سے لے کر وزیر اعظم نواز شریف تک، ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل ظہیر الاسلام سے لے کر لیفٹیننٹ جنرل رضوان اختر تک، سب کا گورنر کے عہدے کے لئے ڈاکٹر عشرت العباد پر اتفاق رائے ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ انہوں نے کئی حکومتوں کو نہ صرف کراچی بلکہ مرکز میں بھی بحران سے نکالا ہے۔
انٹیلی جنس اداروں کے متعدد سربراہان نے بھی ان پر اعتماد کیا۔ کوئی تعجب نہیں کہ اسی وجہ سے وہ گزشتہ 14 سال سے عہدے پر ہیں اور حکومتوں کی تبدیلی کے باوجود برقرار رہے۔ جمعہ کو ہی پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کراچی کے ترقیاتی منصوبوں پر وزیراعلیٰ سید مراد علی شاہ اور ڈاکٹر العباد کے ساتھ ایک میٹنگ کی اور بعض اطلاعات کے مطابق بلاول نے انہیں پیپلز پارٹی میں شامل ہونے کی پیشکش کی تھی۔
دوسری جانب مصطفی کمال کراچی کے سٹی ناظم کی حیثیت سے اپنی سخت محنت کے ساتھ ایک قابل قبول چہرہ بن کر ابھرے۔ کئی طرح سے وہ خوش قسمت تھے کہ ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف ریاست کے سربراہ تھے اور ایم کیو ایم ان کی قابل اعتماد ساتھی تھی۔ یہ سچ ہے کہ ایم کیو ایم بطور پارٹی کمال پیچھے تھی لیکن میں نے ذاتی طور پر کراچی کو ایک بہتر شہر بنانے کیلئے ان کے کام اور کوششوں کو دیکھا ہے، جس کی وجہ سے انہیں دنیا کے بہترین میئر کا ’ایوارڈ‘ بھی ملا۔ جب وہ پارٹی کے سینیٹر بنے تو کبھی مطمئن نظر نہیں آئےاور کوئی اہم کردار بھی ادا نہیں کیا۔ شاید ان کی مہارت بلدیات میں ہی تھی لہذا ڈاکٹر عشرت العباد اور کمال میں کب اور کیوں اختلاف ہوا۔ ؟؟
کیا دونوں کے درمیان مشرف کے زمانے سے شخصیت کا تصادم تھا، اور ڈاکٹر عشرت العباد نے انٹیلی جنس ایجنسیوں اور حکومت کے اعلی حکام کے ساتھ ملاقاتوں میں پی ایس پی کی مخالفت کی۔ میری معلومات کے مطابق جب ان سے رائے لی گئی تو گورنر پی ایس پی کے قیام کے خلاف تھے، اس بنیاد پر کہ اس کا حشر بھی ایم کیو ایم حقیقی یا عظیم طارق انجام سے مختلف نہیں ہوسکتا اور انہوں نے متبادل پلان تجویز کیا تھا۔
ذرائع کے مطابق جب موثر قوتوں نے ڈاکٹر العباد سے مصطفیٰ کمال اور پی ایس پی کے مستقبل کے بارے رائے مانگی تو انہوں نے امید کا اظہار نہیں کیا۔ جہاں تک کرپشن کے الزامات کا تعلق ہے تو اب تک عشرت العباد یا مصطفیٰ کمال کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت نہیں۔ اب اگر سابق سٹی ناظم، ثبوت سامنے لائے تو وہ گورنر کے لئے مسائل پیدا کر سکتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق، کمال کو ڈر ہے کہ 22 اگست کے بعد ڈاکٹر عشرت العباد نے اعلی حکام کے ساتھ اپنی ملاقاتوں میں ڈاکٹر فاروق ستار اور ان کی ٹیم کی پوزیشن کی حمایت کی تھی تاہم الطاف حسین اور ایم کیو ایم لندن نے ان سے اس کے بعد سے کبھی رابطہ نہیں کیا۔
انہوں نے گورنر کے طور پر اپنا عہدہ چھوڑنے سے انکار کیا۔ ذرائع کے مطابق ڈاکٹر عشرت العباد سے ایک بار ایم کیو ایم پاکستان اور پی ایس پی کے درمیان اختلاف کو دور کرنے کی کوشش کرنے کے لئے کہا گیا تھا، لیکن دونوں فریقوں نے اس مرحلے پر اس اقدام کو مسترد کر دیا تھا۔ جب ڈاکٹر عشرت العباد اور کمال دونوں ایم کیو ایم کا حصہ تھے، تو دونوں ‘ایک صفحےپر تھے کہ ایم کیو ایم کو پیپلز پارٹی کی حکومت میں شمولیت اختیار نہیں کرنا چاہئے، جب وزیر داخلہ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا نے ایم کیو ایم کے عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن شروع کیا تھا۔ بعد ازاں عشرت العباد نے سابق صدر آصف علی زرداری کو قائل کیا کہ اگر وہ واقعی کراچی میں کشیدگی کو کم کرنا چاہتا ہیں تو وزیر داخلہ کو ہٹائیں۔
عشرت العباد کو بھی 19 مئی 2013 کو الطاف حسین کی تقریر سے مایوسی ہوئی، جو بالآخر ایک اور تقسیم کی وجہ بنی، جب جنرل ورکرز اجلاس میں ایم کیو ایم کے کارکنوں نے کئی رہنماؤں کو ذلیل کیا اور مارا پیٹا۔ مصطفیٰ کمال، انیس قائم خانی، انیس ایڈووکیٹ، رضا ہارون اور دوسروں نے کسی بھی رسمی اعلان کے بغیر خاموشی سے پارٹی کو چھوڑ دیا۔ الطاف حسین نے بالخصوص کمال کو واپس لانے کے لئے بہت کوشش کی لیکن انہیں بتایا گیا کہ وہ سیاست میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے۔
کمال جب سٹی ناظم اور ایم کیو ایم میں سرگرم تھے تو ‘غصے والےشخص کے طور پر مشہور تھے۔ پارٹی کا لیبر ونگ، خاص طور پر، ان کے رویہ اور طرز عمل سے خوش نہیں تھا۔ یہ چیز انٹرویوز اور پریس کانفرنسوں کے دوران اکثر ان کے سخت لہجے سے جھلکتی ہے۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ تنازعہ کب تک جاری رہے گا اور کیا حتمی نتائج نکلے گے لیکن ڈاکٹر عشرت العباد اب بھی اسٹیلشمنٹ کے ساتھ ساتھ وفاقی و سندھ حکومت کی گڈ بک میں ہے اور اگلے انتخابات سے پہلے اہم عہدہ حاصل کر سکتے ہیں۔