اجمل خٹک کشر
ہم جو ٹوٹے پھوٹے کالم لکھتے ہیں، تو ان پر بسا اوقات دلچسپ مگر کارآمد، معلومات افزا اور صائب تبصرے آتے ہیں۔ بعض فرضی ناموں سے بھی ای میل ہوتی ہیں، تنقید، تنقیص، توصیف سب کچھ ہوتا ہے۔ راقم چونکہ سوشل میڈیا کی دنیا میں ’عجمی‘ ہے اس لئے ایسے دوستوں کو جواب دینے سے معذور رہتا ہے۔البتہ بعض کے اصرار کو ٹالا نہیں جاسکتا،جیسا کہ فاٹا مہمند ایجنسی سے سفیر مومندکا کہناہے کہ آپ کا اگلا کالم افغان، پختون کی تشریح پر مشتمل ہونا چاہئے۔ایک عرض یہ ہے کہ راقم فکر و نظر کےحوالے سے نادیدہ ہے، بس صاحبانِ علم و فضل کے یاقوت ومرجان کو بہ فضل خدائے مہرباںکتابوں سے تلاش کرکے آپ کی خدمت میںپیش کردیتا ہے، اس کے سوا اس کج علم کا اس میں کوئی حصہ نہیں ہوتا۔
ویسے ہمارے ہاں اوہام پرستی عام ہے۔ ریاست، سیاست و سیادت کو بھی یہ دامن گیر ہے، ذرا ذرا سی بات پر لوگوں کی حب الوطنی بلکہ ایمان تک مشکوک بناکر رکھ دیا جاتا ہے، جیسا کہ گزشتہ لیل و نہار میں افغاں کے فغاں پر بعض صاحبان کو وہم سا لاحق ہوگیا تھا۔ حالانکہ پختون، افغان، پٹھان، روہیلہ، سلیمانی، کوہستانی محض ایک قوم کی شناخت کیلئے استعمال ہوتے ہیں، اس سے کسی ملک کی شہریت پر قطعی کوئی اثر نہیں پڑتا۔ جیسا کہ قرآن عظیم سورہ حجرات میں ارشاد باری تعالیٰ ہے’ تم میںکنبے اور قبیلےبنائے تاکہ ایک دوسرے کو پہچانو‘۔پختونوں کو کوہ سلیمان اور پہاڑوں کے دامن میں بسیرا کرنے پر روہیلہ، سلیمانی اور کوہستانی پکارا گیا۔ اور یہ نام افغانستان و پاکستان کے تمام پختونوں کیلئے ہے۔افغان مصنف اور لغت نویس محبت خان کا کہنا ہے کہ ’’روہ‘‘ ایک بڑا خطہ ہے جس میں افغان رہتے ہیں، اس کی مشرقی سرحد کشمیر تک اور مغربی سرحد دریائے ہرمند تک پھیلی ہوئی ہے۔اس کی شمالی سرحد کاشغر (تاشقار) اور جنوبی سرحد بلوچستان سے جاملتی ہے، یہاں کے لوگوں کو روہیلہ کہتے ہیں۔ آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ موجودہ افغانستان وپاکستان دونوں میں رہنےوالے روہیلہ و افغان ہیں یعنی یہ ایک ہی ہیں۔ اب آتے ہیں پٹھان کی طرف۔ سید بہادر شاہ ظفر کاکاخیل اپنی تاریخ اور پروفیسر پریشان خٹک اپنی تصنیف میں لکھتے ہیں ’’پٹھان اصل میں سنسکرت زبان کا لفظ ہے، جو ہندوستانی باشندوں نے قدیم زمانے میں پارتھیوں کیلئے استعمال کیا تھا، چونکہ افغان جسمانی ساخت، لباس، عادات وغیرہ کے حوالے سے پارتھیوں سے زیادہ ملتے تھے لہٰذا جب یہ افغانستان سے ہندوستان گئے تو وہاں ان کو پٹھان کہا جانے لگا۔ انگریز مورخین و حکمرانوں نے بھی پختون کیلئے پٹھان ہی کا نام استعمال کیا ہے۔ پٹھان کی وجہ تسمیہ سے متعلق جو دیگر نظریات ہیں افغان علما انہیں من گھڑت قرار دیتے ہیں۔جہاں تک افغان و پختون یا پشتون کی بات ہے، تو یہ اس قوم کے اپنے نام ہیں۔ ’’پختون تاریخ کی روشنی میں‘‘ کے مطابق پختون کیلئے افغان نام اسلامی دور کے آغاز پر عرب سامنے لائے۔ پھر ایرانی بعدازاں ہندوستانی، ابونصر محمد عبدالجبار العبتی نے تاریخ یمنی میں پختون کو افغان لکھا ہے۔ اسلامی مورخین ابو ریحان البیرونی، فردوسی، ابوالفضل بیہقی اور منہاج السراج نے پختونوں کو افغان بتایا ہے۔ آٹھویں صدی ہجری کے تواریخ ظفرنامہ، ملفوظات تیموری اور مطلع السعدین میں پختونوں کیلئے قدیم لفظ ’’اوغان‘‘ استعمال کیا گیا ہے۔ مسٹر بیلو کا خیال ہے کہ ’اغوان‘ ایک قدیم نام ہے جو آریائی ریشے سے متعلق ہے۔ یہ لفظ اغوان بعدازاں اوغان اور افغان بنا ہے۔ ’’انڈیکا‘‘ کے مترجم مسٹر کرنڈل کی تحقیق کے مطابق افغان لفظ سنسکرت زبان کے ایک لفظ کی بگڑی ہوئی شکل ہے۔ عربی لغت’’قاموس اعلام‘‘ کے مصنف شمس الدین سامی کہتے ہیں’’ افغان ایک قدیم قوم ہے جو پشتو زبان بولتی ہے، یہ زبان آریائی زبانوں کے قافلے میں شامل ہے اور فارسی اورسنسکرت کے ساتھ قریبی مشابہت اور مناسبت رکھتی ہے‘‘۔بابائے مورخین ہیرو ڈوڈٹس جزوی تحریف کے ساتھ پختونوں کو افغان بتاتے ہیں۔ اسلامی دور میں اول بار پختونوں کیلئے افغان کا استعمال’’ حدودالعالم من المشرق الی المغرب تالیف 372 ہجری میں پشاور کے باب میں ہوا ہے۔ سید بہادر شاہ ظفر کاکا خیل کا کہنا ہے کہ ’’618ہجری میں شاید اول بار افغانستان کا نام پختونوں کے مسکن کے طور پر تاریخ ہرات میں سیفی ھروی نے ذکر کیا ہے ۔ مزید یہ کہ احمد شاہ ابدالی نے 1749میں افغانستان کی بطور مملکت بنیاد رکھی، یعنی افغانستان کے قیام سے قبل بھی اس خطے کے باسیوں کو پختون کے ساتھ افغان بھی کہا جاتا تھا ۔یہ واضح رہے کہ اس خطے کا اصل نام پختونخوا ہے، اسکا ذکر 14سو قبل از مسیح’ رگ وید‘میں پکھت(پختون) پکتیکا (پختونخوا) کے تحت ہوا ہے، ایک ہزارقبل مسیح کے ’اُوستا‘484قبل مسیح کے ہیروڈوٹس کے جغرافیہ، امیرالبحر سکائی لاکس کے486-452قبل مسیح کے سفرنامے،یونانی بطلیموس کے جغرافیہ سمیت دیگرقدیم کتب میںموجود پکھت کو پختون اور پکتیکا کو پختونخوا تسلیم کیا گیاہے۔ اسکی تصدیق سب سے پہلے پروفیسر لاسن نے کی پھر ٹرومپ اور گریرسن نے اس کی تصدیق کی۔ جناب عبدالحئی جیبی کی تلخیص ’’دَپختو دَ ادبیا تو تاریخ‘‘ کے مطابق اب تمام ماہرین یہ تسلیم کرتے ہیں کہ قدیم کتب میں یہ نام پختون و پختونخوا ہی ہیں۔
خلاصہ یہ ہے کہ پختون و افغان ایک ہی قوم کے نام ہیں ، لہٰذا پاکستانی پختون خود کو کیوں افغان نہ کہیں؟ پھرپختونوں کے باباخوشحال خان خٹک جو پاکستان ہی میں آسودہ خاک ہیں ،نےساڑھے تین سو سال قبل کہا تھا
دَ افغان پہ ننگ مے و تڑلہ تورہ
ننگیالے دَ زمانے خوشحال خٹک یم
افغانوں کی حمیت کی خاطر اٹھالی ہےتلوار،میں دہرِموجود کا غیور خوشحال خٹک ہوں…اور پھر انہی خوشحال خٹک کو مصور پاکستان حضرت اقبال ہی نے تو شاعرِ افغان شناس قرار دیا ہے
خوش سرود آں شاعر افغان شناس
ہر چہ بنید باز گوید بے ہراس
آں حکیم ملتِ افغانیاں
آں طبیب ِملت ِافغانیاں
راز قومے دید وبے باکانہ گفت
حرف ِحق باشو خئی رندانہ گفت
آپ نے ملاحظہ فرمایاحضرت اقبال خوشحال بابا کو حکیم و طبیب ملتِ افغان قرار دیتے ہوئے یہ بھی واضح کرتے ہیں کہ بابا حق بات ببانگ دہل کہتے ہیں۔ سو وہ حق بات یہ بھی ہے کہ خوشحال بابا کہتے ہیں کہ وہ افغان ہیں، جواب میں مفکرِپاکستان تسلیم کرتے ہیں کہ جی ہاں آپ افغان ہیں۔ چنانچہ حضرت اقبال سےبھی کیا کوئی بڑھ کرصاحبِ ادراک ہے جوکہے نہیں،آپ پختون تو ہیں لیکن افغان نہیں….لیکن کیا کیا جائے کہ ایسے لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ پختون تو پختون ہیںلیکن افغان نہیں!!ظاہر ہے ایسے لوگوں کی سمجھ ہم جیسے ناسمجھو کو کیسے آسکتی ہے…