counter easy hit

بے قاعدگیوں کی ایک جھلک

ارشد وحید چوہدری

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس انور ظہیر جمالی کے جس جملے پہ اعتراض کیا جا سکتا تھا وہ انہوں نے بیان جاری کر کے واضح کر دیا کہ عوام کوحکمرانوں کے خلاف اٹھ کھڑا ہونے کا کہنے سے متعلق الفاظ ان سے غلط طور پر منسوب کئے گئے تاہم لاہوراورنج لائن میٹرو ٹرین منصوبے کے خلاف لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے پر پنجاب حکومت کی اپیل کی سماعت کے دوران جناب چیف جسٹس نے یہ ضرور کہا کہ ملک میں جمہوریت کے نام پر بادشاہت قائم ہے اور گڈ گورننس کے نام پر بیڈ گورننس جاری ہے۔ عوام کو چاہئے کہ وہ اپنے نمائندے منتخب کرتے وقت ووٹ کا حق احتیاط سے استعمال کریں۔ یہ پہلی بار نہیں ہے کہ کسی آئینی ادارے کے سربراہ کی طرف سے حکومت کے طرز حکمرانی اور گورننس کے بارے میں تحفظات ظاہر کئے گئے ہوں بلکہ گزشتہ سال نومبر میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی سربراہی میں منعقدہ کور کمانڈرز کانفرنس کے بعد مسلح افواج کے ترجمان ادارے کی طرف سے جاری اعلامیے میں بھی حکومت کی گورننس پر سوالات اٹھائے گئے تھے جس پرحکمراں صفوں میں ہلچل مچ گئی تھی اور ترجمان حکومت پاکستان نے رد عمل پرمبنی بیان بھی جاری کیا تھا۔ اقتدار پرفائز افراد کے طرز حکمرانی اور گورننس کا اندازہ ان کی پالیسیوں اور ان سے ظاہر ہونیوالے نتائج سے بخوبی اخذ کیا جا سکتا ہے اور جب ان سے متاثر ہونیوالے ریاست کے دیگر فریق اس کی نشان دہی کرتے ہیں تو حکمرانوں کی پیشانی پہ بل پڑ جاتے ہیں۔ مسلم لیگ ن کی حکومت برملا یہ دعویٰ کرتی ہے کہ اسکے دور اقتدار میں ہر سطح پر شفافیت کو اولین ترجیح دی جارہی ہے اور تمام منصوبوں میں بد عنوانی کا شائبہ تک موجود نہیں ہے تاہم دعووں اور حقائق میں فرق ہوتا ہے۔ حکومتی امور میں شفافیت کو جانچنے کے بہت سے طریقے ہیں تاہم سب سے معتبر،آسان اور اہم پیمانہ اس دور حکومت کی آڈٹ رپورٹس ہوتی ہیں جن سے پتہ لگایا جا سکتا ہے کہ مختلف منصوبوں میں کس قدر شفافیت برتی گئی اور حکومتی اداروں میں انتظامی اور مالیاتی نظم و ضبط کی صورتحال کیا ہے۔ موجودہ حکومت کسی بھی سطح پر ہونیوالے ’’احتساب‘‘ سے اس قدر خائف ہے کہ اس کے دور اقتدار کے پہلے سال پر مبنی آڈٹ رپورٹس جو گزشتہ سال روایت کے مطابق جون میں بجٹ پیش کرنے کیساتھ ہی قومی اسمبلی میں پیش کی جانی تھیں وہ سابق آڈیٹر جنرل کیساتھ اختلافات کے باعث مہینوں تاخیر سے پیش کی گئی تھیں جبکہ دوسرے سال یعنی 15-2014 ءکی آڈٹ رپورٹس بھی چار ماہ کی تاخیر سے گزشتہ اجلاس میں چپکے سے پیش کی گئی ہیں۔ تشویش ناک امر یہ ہے کہ مختلف وزارتوں اور ڈویژنوں معاملات کو چھپانے کیلئے اس بار تمام آڈٹ رپورٹس کی بجائے محض چند ہی قومی اسمبلی میں پیش کی گئی ہیں اور ان میں بھی بڑے منصوبوں سے متعلق ایک خصوصی آڈٹ رپورٹ بھی شامل نہیں ہے۔ گرد کو قالین کے نیچے کرنے کی کوششیں اپنی جگہ تاہم سرکاری،نیم سرکاری،خود مختار اور نیم خود مختار چند اداروں کی آڈٹ رپورٹیں بھی حکومت کی شفافیت، مالیاتی نظم و ضبط اور گورننس کی قلعی کھولنے کیلئے کافی ہیں کیوں کہ ان رپورٹوں کے مطابق صرف سرکاری اداروں میں ساڑھے آٹھ سو ارب ر وپے کی بے قاعدگیوں کی نشان دہی کی گئی ہے۔ شیر شاہ سوری کہلانے کے شوقین حکمرانوں کو چونکہ سڑکیں اور پل بنانے کا جنون ہے اسلئے یہاں صرف ایک ادارے نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے حسابات کی جانچ پڑتال پر مشتمل آڈٹ رپورٹ سے چند آڈٹ پیراز کا ذکر کرتا ہوں۔
یہاں یہ بھی واضح کر دوں کہ اقتدار کی نصف مدت گزر جانے کے باوجود تاحال مواصلات کا وفاقی وزیر تعینات نہیں کیا گیا اس لئے این ایچ اے کے امور کے نگراں براہ راست وزیر اعظم ہیں جو رکن قومی اسمبلی کے ذریعے اختیارات کو بروئے کار لا رہے ہیں۔ اس ایک ادارے میں دو چار یا دس ارب نہیں بلکہ 425 ارب روپے سے زائد کی بے قاعدگیاں سامنے آئی ہیں۔ کہیں من پسند فرم کو نوازنے کیلئے ٹینڈر جاری کئے بغیر ٹھیکے دیے گئے ہیں تو کہیں اس کمپنی کو کام ایوارڈ کیا گیا ہے جس نے نیلامی کے عمل میں حصہ تک نہیں لیا تھا۔ مثال کے طور پہ آڈٹ حکام نے نشان دہی کی کہ لاہور اسلام آباد موٹر وے۔ایم ٹو تعمیر و مرمت اور تزئین کا کام کسی مسابقت کے عمل اور کھلی بولی کے بغیر ایک کمپنی کو دے دیا گیا جبکہ کام ایوارڈ کرنے کیلئے ٹینڈر تک طلب کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی گئی اور یوں 36 ارب 82 کروڑ روپے کی بے قاعدگی سامنے آئی۔ اسی طرح آڈٹ حکام نے انکشاف کیا کہ لاہور اسلام آباد موٹر وے پر آئندہ 20 سال ٹول ٹیکس وصول کرنے کا ٹھیکہ تین کمپنیوں پہ مشتمل اس جوائنٹ وینچر کو دے دیا گیا جنہوں نے نیلامی سے متعلق دستاویزات بھی حاصل نہیں کی تھیں،یہی نہیں بلکہ اربوں روپے کا کام ایوارڈ کرنے سے پہلے درکار ابتدائی اسٹڈی،کمرشل اسٹڈی، ٹال ریونیو ایسسمنٹ اور تھرڈ پارٹی اویلیوایشن تک نہیں کرائی گئی جسکے باعث قومی خزانے کو ٹول ٹیکس کی مد میں موصول ہونے والی رقم اس کے حصے سے کم ہو گی۔ آڈٹ حکام نے خبردار کیا کہ اس بد انتظامی کے باعث قومی خزانے کو بیس سال میں 205 ارب 45 کروڑ روپے کا نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔ اسی ادارے کی آڈٹ رپورٹ میں یہ بھی اعتراض کیا گیا ہے کہ سپر ہائی وے کو چار سے چھ رویہ کرنے اور حبیب آباد پل پرریلوے کا اوورہیڈ برج تعمیر کرنے کے دو منصوبوں کے ٹھیکے دینے سے پہلے ابتدائی اسٹڈی،کمرشل اسٹڈی، ٹال ریونیو ایسسمنٹ اور تھرڈ پارٹی اویلیوایشن کرانے کیلئے درکار تقاضے پورے نہیں کئےگئے جبکہ قومی خزانے میں جمع ہونے والے امکانی ٹول ٹیکس کی شرح بھی کم لگائی گئی جس سے ملکی خزانے کو 119 اورب 93 کروڑ روپے کا نقصان پہنچنے کا احتمال ہے۔ ایک اور دلچسپ کیس یہ سامنے آیا کہ پشاور ناردرن بائی پاس پیکج ٹو کے تحت چارسدہ سے ورسک روڈ منصوبے کی تعمیر کیلئے سولہ کمپنیوں نے نیلامی سے متعلق دستاویزات حاصل کیں جن میں سے تکنیکی جانچ پڑتال کیلئے 10 کو منتخب کیا گیا،ان میں سے تین اہل قرار پائیں لیکن چار ماہ بعد ایک ایسی کمپنی کو ٹھیکہ دے دیا گیا جسے تکنیکی طور پہ نا اہل قرار دے دیا گیا تھا۔ مزید ظلم یہ کہ اس کمپنی کو تخمینے سے تینتالیس فیصد زائد نرخوں پر کام ایوارڈ کیا گیا۔ محدود الفاظ کی قدغن کے باعث موجودہ حکومت کی ملکی امور میں ’’شفافیت‘‘ کی اتنی جھلکیاں ہی کافی ہیں جن کی روشنی میں قارئین خود فیصلہ کر لیں کہ ملک میں گڈ گورننس کے نام پر بیڈ گورننس جاری ہے یا نہیں۔ جہاں تک ان آڈٹ رپورٹوں کی روشنی میں احتساب کرنے کا تعلق ہے تو خاطر جمع رکھیں جو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی گردشی قرضوں کی مد میں جاری کئے گئے چار سو اسی ارب روپے کو غیر قانونی قرار دئیے جانے والی خصوصی آڈٹ رپورٹ پر کسی کا بال بیکا نہیں کر سکی وہ ان بے قاعدگیوں پر کیا تیر مار لے گی۔

 

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website