آکسیجن کی نالیاں ناک میں لگی ہیں لیکن اس کے باوجود وہ سانس اوپر کی طرف یوں کھینچ رہا ہے جیسے پیٹ کے اندر سے کسی نے سانس کو پکڑ لیا ہو۔ جیسے پانی سے بھرا ڈول کنویں سے کھینچتے ہیں۔ سانس اوپر آتی ہے تو ایک آڑی کی سی آواز نکلتی ہے، جیسے کسی لکڑی کو کاٹا جا رہا ہو۔ نرس خشک ہونٹوں پر کچھ دیر پہلے ہی کریم لگا کر گئی تھی۔ خزیمہ نصیر کی گردن پیچھے کی طرف مڑ چکی ہے، آنکھوں کی پتلیاں اوپر لگ چکی ہیں اور نیچے والی سفیدی نظر آ رہی ہے۔ کچھ دیر پہلے آنکھوں کی سائیڈوں سے نکلنے والے آنسو گردن تک پہنچ کر دم توڑ چکے ہیں، شاید ڈسکے میں ایک ٹھیلا لگانے والے خزیمہ کی آنکھوں سے نکلنے والے یہ آخری آنسو تھے۔ یہ محض آنسو نہیں تھے، ان میں کرب تھا، دکھ تھا، تکلیف تھی، حسرتیں تھیں، مستقبل کے سنہری خواب تھے اور گھر کی یادیں تھیں۔ خزیمہ کے دائیں جانب کچھ پھول رکھے ہوئے ہیں۔ ان پھولوں کی تازگی اور خزیمہ کی اکھڑتی ہوئی سانسیں دیکھ کر مجھے شک ہو رہا ہے کہ خزیمہ ان پھولوں کی پتیاں گرنے سے پہلے ہی یہ دنیا چھوڑ چکا ہو گا۔ جرمن شہر کولون کے یونیورسٹی اسپتال کی پندرہویں منزل کے اس کمرے میں صرف ایک چھوٹی سی بتی روشن ہے۔ مجھے یہاں آئے آدھا گھنٹہ گزر چکا ہے، خزیمہ کو تھوڑی سی ہوش آئی ہے، وہ کچھ بولنا چاہتا ہے لیکن بول نہیں پا رہا۔ منہ سے غوں غاں کی دو نحیف سی آوازیں نکلی ہیں۔ کیکر کی خشک ٹہنی جیسا بازو بیڈ کی دائیں جانب گر پڑا ہے، جہاں پیشاب کے لیے ایک کیوب رکھی ہوئی ہے۔ ہم اشارہ سمجھ گئے ہیں۔ ایک ڈاکٹر اور ایک نرس نے ہمیں پانچ منٹ کے لیے کمرے سے باہر بھیج دیا ہے۔ خزیمہ کو پیشاب والی نالی لگا دی گئی ہے۔ وہ گزشتہ دو روز سے کھانے کی سکت کھو چکا ہے۔ اب اسے زندہ رکھنے کے لیے نالیوں سے صرف پانی والی غذا دی جا رہی ہے۔ میں نے خزیمہ کے ہاتھ گیلے ٹشو سے صاف کر کے پکڑ لیے ہیں اور اس کے دائیں بازو کو سہلانا شروع کر دیا ہے۔ ہڈیوں کا ڈھانچہ بن جانے والا پچیس سالہ خزیمہ گزشتہ کئی دنوں سے جب بھی آنکھیں کھولتا ہے، ایک ہی رٹ لگاتا ہے، ’’کچھ کرو، پاکستان جانا ہے۔ ماں سے ملنا ہے‘‘۔ ڈسکے کا خزیمہ گزشتہ برس جرمنی بہتر اور روشن مستقبل کے خواب لے کر آیا تھا لیکن چند ماہ ہی بیتے تھے کہ اس پتہ چلا کہ اسے ہڈیوں کا سرطان ہے اور وہ بھی اپنی آخری اسٹیج پر ہے۔ جرمن حکومت اس کا علاج مفت کر رہی ہے۔ چند پاکستانیوں نے مل کر خزیمہ کی واپسی کے لئے پیسے، کاغذات اور ضروری انتظامات بھی مکمل کر لئے ہیں لیکن اب اس حالت میں کوئی بھی ایئر لائن خزیمہ کو پاکستان لے جانے کے لئے تیار نہیں۔ خزیمہ کے والدین کو جرمنی لانے کی کوشش کی گئی لیکن انہیں ویزہ نہیں ملا۔ خزیمہ کو اب بھی یہی امید ہے کہ وہ واپس ڈسکہ اپنے گھر چلا جائے گا، اپنی ان بہنوں، ماں، اور باپ کو زندہ سلامت دیکھ پائے گا، جنہیں غربت کی دلدل سے نکالنے کے لیے وہ ایران، ترکی اور یونان کا کھٹن سفر طے کر کے جرمنی پہنچا تھا۔ وہ بار بار یہی کہتا ہے کہ وہ تابوت میں واپس نہیں جانا چاہتا۔ خزیمہ کو یہی بتایا گیا تھا کہ پانچ نومبر کی ٹکٹ کروائی گئی ہے لیکن سب کو خدشہ تھا کہ شاید خزیمہ کو اتنی مہلت نہیں ملے گی۔ میں خزیمہ کا ہاتھ تھامے قسمت اور مقدروں کے کھیل کے بارے میں سوچ رہا ہوں۔ باہر جانے اور بہتر مستقبل کے خواب اس نے جاگتی آنکھوں سے دیکھے ہوں گے، بہنوں کی شادیاں اورماں باپ کو عمرہ کرانے جیسے اس کے سبھی خواب ریزہ ریزہ ہو کر دیار غیر کے اس کمرے میں بکھرے پڑے ہیں۔میں سوچ رہا ہوں کہ اگر اس کی ماں اس وقت یہاں ہوتی تو اس کا سر اپنی گود سے الگ نہ ہونے دیتی لیکن اس کی آنکھوں سے لائن میں لگ کر گرنے والے آنسو اس کی تنہائی، بے بسی اور پردیس کے موسم خزاں میں قریب آتی ہوئی موت کا عندیہ ہیں۔ اس کی ماں قریب ہوتی تو اس حال میں کسی معجزے اور اس کی صحت یابی کی دعائیں کر رہی ہوتی لیکن یہاں بیٹھے ہم سبھی اس کی آخری سانسوں کا انتظار کر رہے ہیں۔ اسپتال میں زیادہ لوگ نہیں رہ سکتے، ہمیں اب واپس جانے کا کہہ دیا گیا ہے۔ خزیمہ کے سانسوں کی گنتی جاری ہے،ایک الجھن ہے، پتا نہیں کونسی سانس آخری ہو۔ پتا نہیں کتنی باقی رہ گئی ہیں، ایک، دو، پانچ ، دس، سو یا ہزار۔ کتنے منٹ باقی ہیں،کتنی ساعتیں بچی ہیں؟ میں اس اجنبی کے پاس سے اٹھنا نہیں چاہتا، میں اس کا تھاما ہوا ہاتھ چھوڑنا نہیں چاہتا۔ لیکن میری یہ خواہش بھی بالکل اسی طرح پوری نہیں ہو سکتی، جیسے خزیمہ تابوت میں اپنی ماں کے پاس نہیں جانا چاہتا۔ رات ایک بجے کے بعد خزیمہ تنہا ہوگا۔ اسے ہر آدھے گھنٹے بعد صرف نرس دیکھنے آئے گی۔ پتا نہیں اس کی آخری ہچکی کے وقت کوئی اس کا ہاتھ پکڑنے والا بھی وہاں موجود ہوگا یا نہیں۔
( خزیمہ چار نومبر بروز جمعہ انتقال کر گیا تھا)
بشکریہ جنگ