گزشتہ چار دن سے جو ہنڈیا پک رہی تھی، اس کا انجام حفیظ ہوشیارپوری نے اپنے ایک شعر میں کیا تھا
دلوں کی رنجشیں بڑھتی رہیں گی
اگر کچھ فیصلے باہم نہ ہونگے
فیصلے کرانے کیلئے کبھی فوج کو تو کبھی سپریم کورٹ کو آگے آنا پڑتا ہے ورنہ ہمیں تو قومی معاملات پر توجہ دینے کے بجائے باہمی لڑائی سے ہی فرصت نہیں ملتی۔ ہر دو چار سال بعد اس طرح کی لڑائی پاکستان اور انڈیا میں شروع ہوجاتی ہے۔ ساری دنیا مانتی ہے کہ کشمیر کا مسئلہ کشمیریوں کی رائے کے مطابق حل ہونا چاہئے۔ مگر ہم دونوں ممالک ایک دوسرے پر الزام دھرکر افسروں کو نکالنےلگتے ہیں۔ معاملات طے ہونے کے بجائے کلفتیں بڑھتی ہی رہتی ہیں۔ ہمارے بچوں کے بچے جوان ہوگئے ہیں، ہماری سڑکیں جگہ جگہ سے ٹوٹی ہوئی ہیں، ہمارے 8 کروڑ اور انڈیا کے 28کروڑ لوگ خط غربت سے نیچے ہیں۔ عوام کے مسائل حل کرنے کی بجائے ہم باہمی دشمنیوں کو ہوا دیتے رہتے ہیں۔
ہمارا میڈیا بھی کمال کرتا ہے، مستقل عمران خان کی خبر دیئے جاتا رہا، جبکہ انسانی المیہ یہ تھا کہ گڈانی میں جہاز توڑنے والے مزدوروں پر آگ بھڑک اٹھی،کئی دن بعد اس آگ پر قابو پایا گیا۔ فیصل ایدھی نے کہا کہ آگ اتنی تیز ہے کہ زخمیوں کو نکالا جانا بھی ناممکن نظر آرہا ہے۔ پنجاب کے زیادہ تر علاقوں میں اتنی دھند تھی کہ گاڑیوں کا چلنا ناممکن ہو گیا، کجا جہازوں کی آمدورفت۔ ادھر مٹیاری کے علاقے میں سب سے زیادہ گول لال مرچ پیدا ہوتی ہے مگر مارکیٹ میں سودا ہی نہیں بن رہا، خریدار کم قیمت دے رہے ہیں اور ہول سیلر اس سے بھی کم قیمت بتارہے ہیں، بے چارے کاشتکار پریشان ہیں۔ ادھر پاکستان کی 104ٹرینوں میں سے 62نقصان میں جارہی ہیں۔ ایسی باتیں چونکہ سنسنی نہیں پھیلا سکتیں اس لئے اخبار کے کسی کونے کھدرے میں لگادی جاتی ہیں۔
ہم لکھنے والے ایک طرف شور مچارہے ہیں کہ دونوں ملکوں کے نصابوں میں نفرت آمیز اسباق نکال دیئے جائیں اور بچوں کو امن کی اہمیت بتائی جائے۔ ہندوستان میں پہلے توخوشونت سنگھ اور کلدیپ نیر ہوتے تھے، پہلے تو خوشونت جی رخصت ہوئے، کلدیپ نیئر بہت بزرگ ہوگئے ہیں۔ پاکستان میں ڈاکٹرمبشر اور آئی اے رحمان ہیں جو دونوں ملکوں میں حالات سدھارنے کیلئے کوششیں کرتے رہے ہیں۔ سینئر ادیبوں میں انڈیا میں ڈاکٹر نارنگ کے علاوہ شمیم حنفی بھی ایسی آوازیں ہیں جو دونوں ملکوں میں شانتی کی فضا قائم کرنا چاہتی ہیں۔ یہ اس لئے کہ 70برس تک ہر دو سال بعد لڑائی کی فضا نہ صرف ہمارے بچوں کے ذہنوں کو مائوف کررہی ہے بلکہ ان کے سامنے سیاسی اور انسانی سطح پر ڈر اور خوف کی وہ فضا قائم کررہی ہے جو اس وقت مشرق وسطیٰ پر حاوی ہے، جہاں نہ بچوں کو دودھ مل رہا ہے نہ دوائی نہ سر پر کوئی چادر کہ اس وقت سردیاں بڑھ رہی ہیں۔ ہم دونوں ملک کے ادیب جیسے میرا اور کبیر کو پڑھتے ہیں، بالکل اسی طرح میر اور غالب کو پڑھتے ہیں۔ جیسے میرا اور سیتا نے ہندو کلچر میں معاشرے کو آگے بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا۔ اسی طرح مسلمان معاشرے میں حضرت خدیجہؓ اور حضرت عائشہؓ کے نام اسلام کو پھیلانے میں اور عورت کی تکریم بڑھانے میں، اسلام کا اہم حوالہ بنتے ہیں۔ شاید مودی صاحب کو یاد نہ ہو کہ جب قیام پاکستان کے وقت ہندو مسلم فسادات شروع ہوئے تھے، مہاتما گاندھی نے اس وقت صرف برت رکھا تھا۔ رجعت پسند اس وقت ہندوستان میں بھی تھے اور انہوں نے بھی اپنے باپو کو گولی مار کر ختم کیا تھا۔ پاکستان میں ایسے فتنہ پرور موجود تھے جنہوں نے لیاقت علی خان کو اسی طرح گولی مار کرشہید کیا تھا۔ رجعت پسند قوتیں دونوں ملکوں میں اپنے پیر جماتی رہیں۔ انڈیا میں اندراگاندھی اور راجیو گاندھی بھی اسی طرح کی قوتوں کا شکار ہوئے اور پاکستان میں بھٹو صاحب، مرتضیٰ بھٹو، شاہنواز بھٹو اور ہماری بی بی بینظیر بھی ایسی چنگیزیت کے ہاتھوں ماری گئیں۔ کشمیر میں نوجوان وانی کی موت نے لڑائی کے شعلوں کو بھڑکادیا ہے۔ دونوں ملک الزام تراشی پر اپنی قوتیں صرف کرتے رہے۔ بجائے اس کے کہ دونوں ملکوں میں غربت، بیماریوں اور دیہات کی حالت سنوارنے کے لئے مشترکہ کوششیں کرتے، سارک ممالک کے لئے لیڈرشپ فراہم کرتے، امن کا نمونہ پیش کرتے۔ اپنے ہمسایوں یعنی افغانستان اور ایران کے علاوہ سینٹرل ایشین ممالک کی صلاحیتوں کو ساتھ ملا کر جیسے یورپین یونین بنی تھی بالکل ویسے جنوبی ایشیائی ممالک کا بلاک بناتے اور انگریزوں کا چھوڑا ہوا تعفن دفن کرتے۔ اب بھی ظلم اور دیوانگی سے ہاتھ اٹھالیں اور آزادی کے 70برس مشترکہ طور پر منانے کے لئے کانفرنسیں، مشاعرے اور تہذیبی یکتائی پر فلمیں بناکر نئی نسل کو دکھائیں مگر وہاں تو جاگو ہوا سویرا بھی نہیں دکھانے دی گئی۔ میرے انڈیا کے دوستو! آئو مل کر دوستیوں کو بڑھائیں۔
ادھر کشمیر کے بچوں نے جلوس نکالا ہے کہ ہمارا سال ضائع ہورہا ہے، ہمارے اسکول جلادیئے گئے ہیں، ہمیں پڑھانے والے استاد نہیں ہیں کہ لوگوں کو بلاسبب جیلوں میں ڈالا جارہا ہے۔ محبوبہ بی بی کی حکومت تو ظاہری حکومت ہے، وہ تو میرا خیال ہے سانس بھی پوچھے بغیر بھی نہیں لیتی۔ ہمارے سارے دانشور آزادیٔ اظہار اس لئے نہیں کررہے کہ ان کی باتوں کو انڈین ایجنٹ کہہ کر کسی اور سزا کا راستہ نہ کھول دیا جائے کہ بقول حبیب جالب
کہاں قاتل بدلتے ہیں، فقط چہرے بدلتے ہیں
عجب اپنا سفر ہے فاصلے بھی ساتھ چلتے ہیں
اسی شعر سے متاثر ہو کر احمد فراز نے کہا تھا
بزم مقتل جو سجے کل تو یہ امکان بھی ہے
ہم سے بسمل تو رہیں آپ سا قاتل نہ رہے
میں کیا لکھ رہی ہوں، شعر و ادب تو اس وقت ہوتا ہے جب گولیاں زمین میں نہ بوئی جارہی ہوں۔ نیرودا ہو کہ فیض صاحب نے سیاست دانوں کو یہ کہا تھا ’’بندوق کی بجائے عقل استعمال کرو۔‘‘ بھٹو صاحب نے اندرا گاندھی کو سمجھایا تھا کہ ہمیں بجائے لڑنے کے شملہ معاہدہ کرلینا چاہئے۔ خدا کے لئے اس معاہدے کی عزت رکھئے، کشمیر میں میرے بچوں کو شہید کرنا بند کریں۔ ہمیں نیا عراق نہیں دیکھنا ورنہ جالب کے لفظوں میں سب کہیں گے
بہت میں نے سنی ہے آپ کی تقریر مولانا
مگر بدلی نہیں اب تک مری تقدیر مولانا