کابل: شدت پسند تنظیم داعش نے نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے مسلمانوں کے خلاف زہر افشانیوں کے باعث مغربی نوجوانوں کو ٹرمپ کے خلاف میدان جنگ میں اتارنے کا منصوبہ تیار کرلیا ہے۔
داعش ڈونلڈ ٹرمپ کی حیران کن جیت کو ہی پروپیگنڈا کے طور پر استعمال کرکے مغربی نوجوانوں کو بھرتی کرکے نئے امریکی صدر کے لیے نیا محاذ کھولنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے، کیونکہ ٹرمپ نے اپنی صدارتی مہم کے دوران مسلمانوں کے خلاف کھلے عام تعصب پرستانہ تقریریں کی تھیں۔
خبر رساں ادارے رائٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے افغانستان میں داعش کے کمانڈر ابو عمر خراسانی کا کہنا تھا کہ ‘ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی صدارتی مہم کے دوران مسلمانوں کے خلاف کھلے عام زہر افشانی کرکے ہمارا کام مزید آسان کردیا ہے، اب داعش ٹرمپ کی تعصب پرستانہ تقریروں اور حیران کن جیت کو ہی ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف استعمال کرے گی۔’
داعش کمانڈر کا کہنا تھا کہ ‘ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی تقریروں کے دوران سرعام مسلمان شدت پسندوں کو تنقید کا نشانہ بنایا اور لوگوں سے شدت پسندوں کو شکست دینے کے وعدے بھی کیے مگر بنیاد پرست جنگجو اس سرد جنگ میں فتح حاصل کریں گے۔’
داعش کمانڈر کا مزید کہنا تھا کہ ‘ٹرمپ نے اپنی صدارتی مہم کے دوران امریکا میں مسلمانوں کی آمد پر مکمل پابندی کا اعلان کیا تھا اور ان کے اسی اعلان کو بنیاد بنا کر ہم مغربی نوجوانوں کو داعش میں بھرتی کرکے ٹرمپ کے خلاف میدان میں اتاریں گے۔’
یاد رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی صدارتی مہم کے دوران امریکا میں مسلمانوں کی مکمل پابندی کے اعلان کے ساتھ ساتھ انتہاپسندی میں ملوث تارکین وطن کو بھی ملک بدر کرنے کا اعلان کیا تھا، تاہم انھوں نے صدارتی مہم کے دوران انتہا پسندوں، جنگجوؤں، داعش، طالبان اور القاعدہ سے لڑنے کے حوالے سے اپنے منصوبے ظاہر نہیں کیے تھے۔
عراق کے نامور شیعہ رہنما مقتدہ الصدر کا کہنا تھا کہ طالبان اور داعش کی طرح ان کی تنظیم مغرب پر حملے کرنے کی حوصلہ افزائی نہیں کرتی، مگر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی صدارتی مہم کے دوران انتہاپسندی اور جدید اسلامی رجحانات کے درمیان کوئی فرق نہیں رکھا، ان کی نظر میں سب ایک جیسے ہیں۔
سنی جہادی تنظیموں کے حوالے سے عراقی حکومت کے مشیر ہشام الہاشمی کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت کے بعد القاعدہ بھی وائٹ ہاؤس کے بیانات اور ٹرمپ کی تقریروں کے تناظر میں نئی بھرتیوں کی تیاریوں کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔
جنگجوؤں کی منصوبہ بندی پر ٹرمپ کیا کر رہے ہیں؟
داعش، القاعدہ اور طالبان جیسی شدت پسند تنظیموں کی جانب سے ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف نئے محاذ کھولنے کے اعلان اور مغربی نوجوانوں کو بھرتی کرکے ٹرمپ کے خلاف میدان میں اتارے جانے کے اعلانات پر تاحال ٹرمپ آفس کی جانب سے کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا گیا، جبکہ امریکی انتخابات میں جیت کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ کی تعصبانہ گفتگو میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر ڈونلڈ ٹرمپ نے تعصبانہ گفتگو اور تقریریں جاری رکھیں تو شدت پسند تنظیمیں ٹرمپ کی تقریروں کو ہی ان کے خلاف استعمال کرکے اپنی طاقت میں اضافہ کریں گی، صدارتی مہم کے دوران ٹرمپ کی تقریروں نے جنگجوؤں کے لیے ایندھن کا کام کیا۔
افغان طالبان کے ایک سینیئر کمانڈر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ٹرمپ کی مسلم مخالف تقریروں اور تعصب پر مبنی مہم کو بنیاد بنا کر جنگجو گروپ امریکا کو طویل جنگ کے منہ میں دھکیل دیں گے، اگر ٹرمپ نے اپنی مہم کے دوران مسلم مخالف منصوبوں کو اب تکمیل تک پہچانے کی کوشش کی تو مسلم امت بھی جنگجوؤں کے ساتھ ہوجائے گی۔