میں جاگاتو کنارِچشمہ ء ارمغانِ حجاز دیرتک علامہ اقبال سے گفتگو کرتا رہاجب اقبال نےکہاکہ’’فلسفی کو سچائی جاننے کی کوئی ضرورت نہیں اسے ان مسائل کا حل تلاش کرنا چاہئے جو انسانی زندگی کو درپیش ہیں‘‘تومیں اٹھ کھڑا ہوااورفلسفہ ء اقبال پر لکھی ہوئی تمام کتابیں میانوالی کی مونسپل کمیٹی کی لائبریری میں دے آیا۔جہاں اس سے پہلے بھی انقلاب کے کئی فلسفے منشی سیف اللہ نے بھاری بھرکم تالوں میں رکھے ہوئے تھے میں ان الماریوں کےعقوبت خانوں میں زیادہ دیر نہ ٹھہر سکا۔ مجھے معلوم ہو چکا تھا کہ فلسفی سچائی کی تلاش میں نکلا ہوا سائنس دان نہیں ہوتا۔میں نے اقبال سے پوچھ لیا تھا کہ پاکستان میں تبدیلی کیسے ممکن ہے۔ انقلاب کیسے آسکتا ہےمگرسوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ لوگ جنہیں یہ ملک اطلس و کمخواب کے ملبوس پہناتے پہناتے خود برہنہ ہو گیاہے۔جن کی الماریوں میں سونے کی سلیں رکھتے رکھتے اس کی اپنی تجوریاں سنسان ہوگئی ہیں۔جن کی جھولیاں بھرتے بھرتے خوداس کی اپنی جھولی خالی ہوگئی ہے۔جن جوتوںکی ایڑی کی ایک ایک قوس پر اس دھرتی نے کئی کئی کروڑ ڈالروار دئیے ہیں۔وہ تو ربڑکے بنے ہوئے لوگ ہیں۔ٹوٹتے نہیں ہیں۔کبھی سکڑ جاتے ہیں اور کبھی کھچ کر بڑے ہوجاتے ہیں۔ ضرورت پڑنے پر یہی لوگ کسی بڑے انقلابی لیڈر کا فرغل بھی پہن لیتے ہیںبلکہ انتخابات سے پہلے توتقریباہرلیڈر اقبال کاانقلابی بن جاتا ہے۔ ہمیشہ سے یہی لوگ اقبال کے انقلاب کو روکتے چلے آرہے ہیں۔یہ اقبال کے انقلاب کو روکنے والے بڑے چالاک ہیں۔ہمارا واسطہ شیر کے روپ میں حکمرانی ء روباہ سے پڑا ہوا ہے۔لہولگا کر شہیدوں میں شامل ہونے کا فن انہیں خوب آتا ہے لیکن اب یہ بات بھی روزِ روشن کی طرح عیاں ہوچکی ہے کہ پاکستان کو صرف انقلابِ اقبال کی لہو سے لتھڑی ہوئی شفق کی جھیلیں ہی صبح سے ہمکنار کرسکتی ہیں۔یہ لال شفق کی جھیلیں سرمایہ دارانہ نظام کے قتل سے نمو دار ہوتی ہیں۔جاگیر داری کی قبر سے نکلتی ہیں اور انتہا پسندی کی راکھ سے جنم لیتی ہیں۔سرمایہ دار جنہیں اقبال نے فرزندِ ابلیس کہا۔ تری حریف ہے یارب سیاست افرنگ مگر ہیں اس کے پجاری فقط امیر و رئیس بنایا ایک ہی ابلیس آگ سے تُونے بنائے خاک سے اس نے دوصد ہزار ابلیس ہمارے حکمرانوں جیسے امیروں اور رئیسوں کا شمار انہی دو صد ہزار میں ہوتا ہے۔خداوند قدوس نے نظام زر کے انہی نگہبانوں کو شداد اور قارون کے نام سے یاد کیاہے۔ شداد اور قارون کی تباہی کے پیریڈ میں اقبالیات کی کلاس میں داخل ہواتو وہاں مسئلہ ملکیتِ زمین چھیڑا ہوا تھا۔ اقبال، مزاریوں، بھٹوئوں، جتوئیوں اورپگاڑوں سے پوچھ رہے تھے
پالتا ہے بیج کو مٹی کی تاریکی میں کون کون دریاؤں کی موجوں سے اٹھا تا ہے سحاب
کون لایا کھینچ کر پچھم سے بادِ سازگار خاک یہ کس کی ہے کس کا ہے یہ نورِ آفتاب
کس نے بھر دی موتیوں سے خوشہءِ گندم کی جیب موسموں کو کس نے سکھلائی ہے خُوئے انقلاب
دہ خدایا یہ زمیں تیری نہیں تیری نہیں تیرے آباء کی نہیں تیری نہیں میری نہیں
اقبال نے اس نظم کا سرنامہ بھی الارض اللہ رکھا ہے۔الارض اللہ قرآن حکیم کی ایک اصطلاح ہے جس کا مفہوم ہےکہ زمین اللہ کی ہے اور تمام مخلوق کے لئے برابر ہے۔یہ الگ بات ہے کہ’’پک کے تیار جوہوتی ہیں کنواری فصلیں۔۔۔ان کو زردار پہ ہی وار دیا جاتا ہے۔۔جس نے کھیتوں کو پلایا تھا لہو چھاتی کا۔۔جیسے کتا ہے کہ دھتکار دیا جاتا ہے۔انقلابِ اقبال کی تیسری کرن انتہا پسندی کی راکھ سے نکلتی ہے۔انتہا پسندی کی فیکٹریوں میں بنانے جانے والے روبوٹس کےمتعلق اقبال کو یقین ہے کہ ان کی آنکھیں نہیں بنائی جاتیں، یہ لوگ پیدائشی اندھے ہوتے ہیں اور قران حکیم کےاسرار ورموز،سورج کی زرتار شعاعوں کی طرح ہیں سوان کا دین فساد فی سبیل اللہ بن جاتا ہے۔ اقبال فرماتے ہیں۔۔مکتب و ملا واسرارِ کتاب۔۔۔کورِ مادر زاد و نورِ آفتاب۔۔دینِ کافر، فکر و تدبیرو جہاد۔۔دینِ ملافی سبیل اللہ فساد۔۔اور پاکستان پچھلی تین دہائیوں سے اسی فسادِ فی سبیل اللہ کے نرغے میں ہے۔ مذہب کے نام پر ظلم و بربریت کی داستان لکھی جارہی ہے۔جسے ضرب عضب نے کسی حد تک اپنے انجام تک پہنچا دیاہے۔لیکن مجھے سب سے زیادہ دکھ اس دن ہوا جب شاہد محمود ندیم کے ایک ڈرامے میں یہ کہا گیا کہ فکرِ اقبال نے طالبان کو جنم دیا ہے۔یہ اقبال کی توہین ہے۔ میرا حکومت سے مطالبہ ہے کہ اقبال کے پاکستان میں ’’توہین اقبال‘‘ کو باقاعدہ ایک جرم قرار دیا جائے کیونکہ اب تواقبال کے پاکستان کی فکری اساس پر بھی گولہ باری شروع کردی گئی ہے۔
بلوچستان ہائوس اسلام آباد میں یومِ اقبال کی تقریب میں پڑھا گیا )تحریر منصور آفاق ، بشکریہ جنگ)