کراچی: سندھ ہائی کورٹ نے پیپلز پارٹی کے چیرمین بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے سیکیورٹی کی فراہمی کے لیے دائر درخواست پر قانون اور حکومتی پالیسی سے متعلق تفصیلات طلب کرلیں ہیں۔
سندھ ہائی کورٹ میں بلاول بھٹو کی سیکیورٹی سے متعلق درخواست پر سماعت ہوئی جس میں بلاول بھٹو کی جانب سے موقف اپنایا گیا کہ مختلف سیکیورٹی اداروں کی رپورٹس کے مطابق میری جان کو خطرہ ہے لہذا ملک بھر میں سفر کے دوران لائسنس یافتہ اسلحے کے ساتھ گارڈز، بُلٹ پروف اور سیاہ شیشوں والی گاڑی استعمال کرنے کی اجازت دی جائے، غیر جمہوری اور انتہا پسند قوتیں نقصان پہنچاناچاہتی ہیں اور میری والدہ کو بھی دہشت گردوں نے نشانہ بنایا۔
سماعت کے موقع پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ سرحدوں پر فوجی جوان قربانیاں دے رہے ہیں اور ہم خصوصی سیکیورٹی کے طلب گار ہیں تاہم یہ معاملہ صوبائی حکومت کا ہے، وفاق کا اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں۔
چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ سندھ حکومت جسے چاہتی ہے سیکیورٹی دیتی ہے جسے چاہتی ہے نہیں دیتی، جب نبیل گبول ان کے پاس تھا تو 50 گاڑیاں تھیں اب حکومت میں نہیں تو سیکیورٹی کے لیے روتا پھررہا ہے، ذوالفقار مرزا کے پاس بھی 2 سو گاڑیوں کا پروٹوکول تھا لیکن اب حکومت سے نکل گئے تو سیکیورٹی کےلیے رونا پڑا،حیرت ہے بلاول بھٹو زرداری اپنی ہی حکومت سے سیکیورٹی مانگ رہے ہیں، جو وزرا آپ سے ملنے دبئی جاتے ہیں اور دو سو گاڑیوں کا قافلہ لے کر گھومتے ہیں ان سے سیکیورٹی مانگ رہے ہیں، سیکیورٹی ہر شہری کا حق ہے لہذا بلاول کو خصوصی سیکیورٹی کا حکم کیسے دیں۔اگر بلاول کے لیے سیکیورٹی کا حکم دیں گے تو بہت درخواست گزار آجائیں گے۔
عدالت نے بلاول زرداری کے وکیل سے خصوصی سیکیورٹی فراہم کرنے سے متعلق قانون اور پالیسی کی تفصیلات طلب کرتےہوئے کہا کہ بتایا جائے کسی کو سیکیورٹی فراہم کرنے سے متعلق کیا قانون ہے، عدالت نے درخواست کی سماعت 24 نومبر تکملتوی کردی۔