پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف اپنے منصب سے سبکدوش ہو رہے ہیں۔ جنرل راحیل شریف پاکستانی فوج کے واحد فوجی سپہ سالار ہیں جنہیں تین اعزاز نصیب ہو رہے ہیں۔ انہوں نے مارشل لا نافذ نہیں کیا، ان کی درپردہ حمایت سے کسی منتخب حکومت کو برطرف نہیں کیا گیا اور انہوں نے اپنے عہدے کی میعاد میں توسیع نہیں لی۔ جنرل راحیل شریف کے علاوہ یہ اعزاز جنرل ٹکا خان کے حصے میں آ سکتا تھا لیکن وہ آئین کے نفاذ سے ایک برس پہلے کمان سنبھالنے کی وجہ سے چار برس تک اس عہدے پر فائز رہے۔ جنرل راحیل شریف نے ایک منتخب وزیراعظم کے قلم سے تقرری کے بعد اپنے فرائض خوش اسلوبی سے ادا کئے اور آئین میں دی گئی مدت ختم ہونے پر احترام کے ساتھ رخصت ہو رہے ہیں۔ دنیا کی کسی دوسری قوم میں یہ معمول کا واقعہ ہوتا۔ ہمارے تناظر میں یہ ایک تاریخی قدم اور ہماری قومی بلوغت کا نشان ہے۔ اب جنرل راحیل شریف کا حقیقی شکریہ ادا کرنے کا مناسب موقع ہے کیونکہ یہ سوشل میڈیا پر ہیش ٹیگ کا ٹرینڈ نہیں بلکہ اس درویش صحافی کی طرف سے خراج تحسین ہے جس نے 2014 کے موسم بہار میں جنرل صاحب سے تب اختلاف قلم بند کیا تھا جب جنرل پرویز مشرف ایک فوجی اسپتال میں استراحت فرما رہے تھے اور ملک کے اہم ذرائع ابلاغ پر آزمائش کا سورج سوا نیزے پر آ گیا تھا۔ جنرل راحیل شریف نے شمالی وزیرستان میں فیصلہ کن کارروائی کے ذریعہ دہشت گردی کے عفریت کو فیصلہ کن نقصان پہنچایا۔ کراچی میں سیاسی دہشت گردی کا توازن یکسر بدل کر رکھ دیا۔ فرقہ وارانہ تنظیموں کو بڑی حد تک پسپا کیا۔ بلوچستان میں بدامنی کی تصویر کو واضح طور پر بہتر بنایا۔ پاک چین اقتصادی راہداری کو ایک تصور سے حقیقت بننے میں مدد دی۔ جنرل صاحب نے یہ سب اقدامات منتخب سیاسی قیادت کی مکمل تائید سے کئے۔ قوم جنرل راحیل شریف کی شکر گزار ہے۔ قوم نے ستمبر 2013 میں پہلی مرتبہ ایک منتخب صدر کو الوداعی عشائیہ دے کر عزت سے رخصت کیا تھا۔ نومبر 2016 میں فوج کے سربراہ کو پہلی مرتبہ آئینی میعاد کا احترام کرتے ہوئے الوداعی عشائیوں میں شرکت کرتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔ اس روایت سے پاکستان کی فوج مضبوط ہوگی۔ جمہوریت مستحکم ہوگی اور ملک کا وقار بڑھے گا۔ آیئے اب کچھ ایسے معاملات پر نظر ڈالیں جہاں کچھ سوالات کا شرح صدر کے ساتھ جواب سامنے آنا باقی ہے۔
ہمارے ملک میں آمریت اور جمہوریت کی کشمکش طویل ہے۔ چار مرتبہ ہم آئینی تعطل اور متعدد محلاتی سازشوں سے گزرے ہیں۔ آئین کی عمل داری کا تسلسل پہلی مرتبہ آٹھ برس مکمل کر رہا ہے۔ تشدد، آمریت اور دہشت گردی میں ایک نکتہ مشترک ہے۔ ان معاملات میں واقعاتی حقائق اور اعداد و شمار سے زیادہ تاثر اور امکان کو حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ ایک مہذب قوم تشدد، آمریت اور دہشت گردی کو امکان کے طور پر قبول نہیں کرتی۔ گزشتہ آٹھ برس میں غیر جمہوری مداخلت نہیں کی گئی لیکن مداخلت کے امکان کو دو ٹوک انداز میں رد بھی نہیں کیا گیا۔ غیرعلانیہ تصادم کا بھیڑیا گھر کی چار دیواری کے گرد مسلسل اپنی موجودگی کا احساس دلاتا رہا ہے۔ کیری لوگر بل اور قومی سلامتی کے دوسرے معاملات پر جس طرح بروقت ٹویٹ کے ذریعے واضح پیغامات دئیے گئے، ایسے اشاروں کے لئے جمہوریت نواز حلقوں کے کان اہم مواقع پر ترستے رہے۔ کھمبوں پر بینر لٹکائے گئے، ذرائع ابلاغ میں آمریت کو گویا جائز متبادل کے طور پر زیر بحث لایا گیا۔ صحافی کو کیبل آپریٹر کا مقابلہ کرنا پڑا۔ سیاست کے منظر پر امپائر کی انگلی ایک دھمکی کی طرح پیش کی گئی۔ ووٹ دینے والے سوکھے پتوں کی طرح لرزتے رہے۔ وہ نظر بہم نہ پہنچی کہ محیط حسن کرتے …
پاکستان کی فوج ہمارے جسد اجتماعی کا عزیز ٹکڑا ہے۔ جمہور اور فوج میں باہم اعتماد اور احترام کا رشتہ ہونا چاہئے۔ اس تعلق میں مخاصمت کی گنجائش نہیں۔ آئین نے عوام کو حق حکمرانی سونپا ہے۔ یعنی قومی مفاد کا تعین عوام کی رائے سے ہوگا۔ اگر منتخب قیادت کو کلیدی معاملات میں فیصلہ سازی کا اختیار نہیں تو اس کا مطلب ہے کہ قوم کو اپنے مفاد کے تعین کا اہل نہیں سمجھا جاتا۔ اس سے جمہوریت کے تقاضے پورے نہیں ہوتے۔ جمہوریت کے خیر خواہ سلامتی اور قوم کے معاملات کو الگ الگ خانوں میں نہیں بانٹتے۔ قومی ترجیحات معاشی وسائل کے حجم سے تعلق رکھتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم قومی ترجیحات میں ایسی تبدیلیوں کا اختیار رکھتے ہیں کہ جس سے قوم کے معاشی معیار، سیاسی استحکام اور سماجی ارتقا کو بہتر بنایا جا سکے۔ قوم کے معیار میں یہ ترقی خوف، بے بسی اور محرومی کی اس فضا میں ممکن نہیں جہاں سیاسی قزاق آمریت کی دھمکی دیتے ہیں اور صحافتی سٹے باز آئین پر داؤ کھیلتے ہیں۔ غیرجمہوری قوتوں کی حکمت عملی یہ ہے کہ منتخب سیاسی قوتوں کے مقابلے میں ایک ایسا غیرعلانیہ بیانیہ قائم رکھا جائے جس کی بنیاد مذہبی عصبیت، جذباتی قوم پرستی اور سیاسی کٹھ پتلیوں پر رکھی گئی ہو۔ قومی مفاد کا تقاضا ہے کہ ہم کھلے دل کے ساتھ اس نیم مجرمانہ بیانیے کو رد کریں۔ ووٹ سے منتخب ہونے والی حکومتوں کو اپنی کارکردگی دکھانے کا موقع ملنا چاہئے اور عوام کو آئین کے مطابق منتخب قیادت کی جواب دہی کا موقع ملنا چاہئے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ اجتماعی مکالمے میں اس تاثر کو رد کیا جائے کہ افواج پاکستان ہمارے قومی امکان کی محتسب ہے اور سیاسی اختلافات کی صورت میں ثالث کا کردار ادا کر سکتی ہے۔ آمریت کے تاریک برسوں میں ہم نے نظریاتی سرحدوں کی اصطلاح دریافت کی تھی۔ آئین میں ایسی سرحدوں کا کوئی ذکر نہیں۔ آئین میں دئیے گئے اداروں کے کردار سے تجاوز کی ہر صورت قوم کو کمزور کرتی ہے۔ ہمیں پاکستانی فوج کا پیشہ ورانہ تشخص مزید مضبوط کرنا چاہئے اور واضح کرنا چاہئے کہ ملک و قوم کا دفاع ہی جہاد ہے۔ جس طرح قوم کی یک جہتی کے لئے شہریوں میں آئینی اور قانونی مساوات ضروری ہے اسی طرح ایک پیشہ ور سپاہ کو اعتقادی معاملات کی بجائے خالص عسکری امور پر توجہ دینی چاہئے۔ ہم آئین کی پاسداری پر جنرل راحیل شریف کی تحسین کرتے ہیں اور توقع کرتے ہیں کہ آئندہ اس عظیم فوج کی کمان سنبھالنے والے اس اچھی روایت کو آگے بڑھائیں گے تاکہ ملک کے تمام ادارے، گروہ اور طبقات باہم اعتماد اور تعاون کے جذبے سے ملک کی ترقی میں حصہ لے سکیں۔