سرمایہ دارانہ نظام میں بڑے انسان کا تصور دولت کے ساتھ بندھا ہوا ہے، اس نظام میں یہ نہیں دیکھا جاتا کہ دولت کس طرح حاصل کی جاتی ہے، بس یہ دیکھا جاتا ہے کہ کون کس قدر دولت مند ہے اور اس پیمانے سے انسان کی بڑائی ناپی جاتی ہے۔ اس طرز فکر کا نتیجہ یہ ہے کہ چور، ڈاکو، بددیانت لوگ بھی محض دولت کی وجہ سے معاشرے کے قابل احترام لوگوں میں شامل ہو گئے ہیں اور صاحب علم اور صاحب بصیرت لوگوں کو آٹے دال کے چکر میں اس طرح جکڑ کر رکھ دیا گیا ہے کہ ان کا علم، ان کی بصیرت، چوروں، ڈاکوؤں کی دولت کی چکاچوند میں گم ہو کر رہ گئی ہے۔
اس نظام کی یہ ’’خوبی‘‘ ہے کہ دولت کے حصول کے لیے کسی خوبی، کسی علم، کسی بصارت کی ضرورت نہیں ہوتی، بلکہ اس نظام میں جو سب سے بڑا بددیانت ہوتا ہے وہ اتنا ہی بڑا انسان بن جاتا ہے۔ مغربی ملکوں میں ایسے رسائل پابندی سے شایع ہوتے رہتے ہیں جن میں دنیا کے بڑے دولت مندوں کی فہرست دی جاتی ہے، مثلاً بل گیٹس کا شمار دنیا کے سب سے بڑے دولت مند میں ہوتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ بل گیٹس کے پاس 80، 70 ارب ڈالر کی دولت ہے لیکن دنیا کے ان سب سے بڑے دولت مندوں نے یہ دولت کس طرح حاصل کی اس کی تفصیل نہیں بتائی جاتی اور عموماً دولت کے اس ارتکاز کو ’’کاروبار‘‘ کا کرشمہ قرار دیا جاتا ہے اور سرمایہ دارانہ نظام میں منافع ہی دولت کے ارتکاز کا بڑا سبب ہوتا ہے اور اس نظام میں کاروبار کی نوعیت کچھ بھی ہو اس میں منافع کی کوئی حد مقرر نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ بڑے کاروباری لوگوں کا کاروبار دن دگنی رات چوگنی ترقی کرتا رہتا ہے۔ اس ’’حلال کی کمائی‘‘ پر نہ قانون کو اعتراض ہوتا ہے نہ اخلاق کو، نہ معاشرے کو۔ بل گیٹس جیسے ارب پتی جن کی دولت میں اضافہ ایک خود کار نظام کے ذریعے ہوتا رہتا ہے چیریٹی یعنی خیراتی کاموں میں چند ارب کا سرمایہ لگاکر ساری دنیا میں سخی داتا کا نام پاتے ہیں اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اہل قلم ان سخی داتاؤں کی سخاوت کی داستانیں اس طرح بیان کرتے ہیں کہ کسی کی نظر اس سوال کی طرف نہیں جاتی کہ یہ دولت حاصل کس طرح کی گئی۔
جس نظام میں انسان کی بڑائی کا معیار صرف اور صرف دولت ہو، اس نظام میں اہلیت، علم، بصیرت جیسی خوبیاں گمنامی کے اندھیروں میں پڑی سڑتی رہتی ہیں۔ جن معاشروں میں اہلیت، علم، بصیرت جیسی خوبیاں کمزوریوں میں شمار ہوتی ہیں وہ معاشرے ناانصافیوں، نااہلیوں کا مرتکب بن جاتے ہیں۔ اگر ارتکاز زر سے کسی کو کوئی نقصان نہ ہو تو، ارتکاز زر پر کسی کو اعتراض نہیں ہو سکتا لیکن جب حقیقت یہ ہو کہ ایک بل گیٹس کی دولت کے انبار میں لاکھوں غریبوں کی زندگی کی آسودگی دب کر رہ جاتی ہو تو ایسا ارتکاز زر ایسی مصیبت میں بدل جاتے ہیں جس کو ہر قیمت پر ختم ہونا چاہیے۔
دنیا کا ہر وہ ملک جہاں سرمایہ دارانہ معیشت را ئج ہے، ایسے ’’بڑے لوگوں‘‘ سے بھرا ہوا ہے جن کی بڑائی کا دارومدار صرف اور صرف دولت پر ہوتا ہے اور دولت کا ارتکاز کسی طرح بھی جائز ذرایع سے ممکن نہیں۔ اس حوالے سے دلچسپ بات یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام میں رائج جمہوریت میں بھی دولت سب سے اہم فیکٹر ہوتی ہے، مثال کے طور پر اربوں کی دولت کے مالک دولت ہی کے بل بوتے پر اقتدار حاصل کرتے ہیں اور اس مکروہ نظام میں اقتدار حصول دولت کا سب سے بڑا اور سب سے آسان ذریعہ بنا ہوا ہے، حصول اقتدار کے لیے جمہوری نظام میں انتخابات میں حصہ لینا پڑتا ہے اور انتخابات میں وہی شخص حصہ لے سکتا ہے جو کروڑوں کی دولت انتخابی مہم پر خرچ کر سکے۔ یہ وہ جمہوری سرمایہ کاری ہے جو ناقابل یقین منافع کے ساتھ واپس آتی ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اہلیت، صلاحیت، علم اور بصیرت کی برتری کی راہ کس طرح ہموار کی جائے۔ سر سے پیر تک دولت کے انبار میں دفن اس معاشرے میں علم، بصیرت، اہلیت وغیرہ کی سربلندی کوئی آسان کام نہیں، اس کے لیے ایک منظم اور مربوط قلمی مہم کی ضرورت ہے، لیکن یہ مہم اس لیے آسان نہیں کہ ہمارے قلمکاروں کی اکثریت بلکہ بھاری اکثریت دولت کے پیچھے بھاگ رہی ہے۔ ایسے معاشروں میں جہاں زندگی کا واحد مقصد حصول دولت ہو، دولت سے بے نیاز ہو کر اہلیت، بصیرت، علم و عمل کی برتری کی جدوجہد آسان کام نہیں، اس حوصلہ طلب کام میں قدم قدم پر نئی نئی آزمائشیں درپیش رہتی ہیں، خاص طور پر خود اہل خانہ سب سے بڑے شکایت کنندہ ہوتے ہیں کہ ان کی آسودہ زندگی کی قیمت پر جو کام کیا جا رہا ہے اس سے انھیں کیا فائدہ ہو گا؟ اس سوال کا جواب بڑا مشکل بھی ہے، کٹھن بھی۔ کیوںکہ ہر کوئی حال کو مستقبل پر قربان کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا، لیکن ان ساری مشکلات اور گمنامیوں کے باوجود بہت سارے اہل علم، اہل قلم، اس نامنصفانہ، ظالمانہ اور غیر انسانی نظام کو بدلنے کے لیے اپنی صلاحیتوں، اپنے قلم کو بھرپور طریقے سے استعمال کر رہے ہیں۔
اس نظام زر میں صرف دولت دیکھی جاتی ہے، دولت کس طرح حاصل کی گئی اس پر غور کرنے کی زحمت نہیں کی جاتی۔ اس حوالے سے پانامہ لیکس کا اسکینڈل ہمارے سامنے ہے اور دنیا کے کئی ملکوں میں پانامہ لیکس، ان حکمرانوں کے سامنے صورت سوال بنا کھڑا ہے جو ناجائز طریقوں سے دولت کا انبار لگائے بیٹھے ہیں اور اسی دولت کے سہارے حکمران بھی بن بیٹھے ہیں۔ ہمارے ملک میں بھی پانامہ لیکس اور اس کے ’’دہی بڑوں‘‘ پر مشکل وقت آیا ہے اور ہمارے سپریم کورٹ، وزیراعظم سے جو تین سوال پوچھ رہی ہے اس کا لب لباب بھی یہی ہے کہ دولت کس طرح حاصل کی گئی۔ یہ تین سوال صرف وزیراعظم سے نہیں بلکہ اس پورے کرپٹ نظام سے ہیں جس میں بڑائی کا معیار صرف دولت ہے