counter easy hit

’’ 21 دسمبر کا دِن!‘‘

21 دسمبر کا دِن اُس وقت میرے لئے اہم ہوگیا تھا۔ جب اللہ تعالیٰ نے 2002ء میں ’’نیویارک واسی‘‘ میرے فرزندِ اوّل ذوالفقار علی چوہان کو فرزندِ اوّل شاف علی چوہان عطا کِیا۔ پرسوں (21 دسمبر کو) مَیں نے دُبئی میں مُقیم اپنے بیٹے شہباز علی چوہان کی اہلیہ عنبرین چوہان، اپنی بیٹی فائزہ کاشف، اُس کے میاں کاشف جاوید خان اور بیٹیوں حیا فاطمہ اور نور فاطمہ کے ساتھ مِل کر شاف علی چوہان کی 14ویں سالگرہ منائی۔ 21 دسمبر کو ’’قومی ترانہ‘‘ کے خالق حضرت حفیظ جالندھری کی 34 ویں برسی تھی۔ یہ پہلی مرتبہ ہُوا کہ ہم نے شاف علی چوہان کی سالگرہ کا کیک کاٹنے سے پہلے ’’شاعرِ پاکستان‘‘ جناب حفیظ جالندھری کی مغفرت کے لئے فاتحہ خوانی کی۔
21 دسمبر کو ’’قومی ترانہ فائونڈیشن‘‘ کے چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر عزیز احمد ہاشمی کے زیر اہتمام اسلام آباد میں جناب حفیظ جالندھری کی برسی کی تقریب تھی۔ ’’نظریۂ پاکستان ٹرسٹ‘‘ کے سیکرٹری برادرِ عزیز سیّد شاہد رشید مجھے اپنے ساتھ لے جانا چاہتے تھے۔ میں خرابیٔ صحت کے باعث نہیں جا سکا۔ مَیںنے21 دسمبر کو الیکٹرانک میڈیا پر حفیظ جالندھری صاحب سے متعلق پروگرام دیکھے۔ قومی اخبارات میں اُن کے بارے میں مضامین پڑھے۔ ’’نوائے وقت‘‘ میں جناب مجید غنی کا مضمون مجھے بہت اچھا لگا۔ جن کے خاندان کے حفیظ جالندھری صاحب کے خاندان سے گھریلو تعلقات رہے ۔ مجید غنی صاحب نے لِکھا کہ ’’محترم حفیظ صاحب جب ہمارے گھر تشریف لاتے تو مجھے دس روپے کا نوٹ ضرور دیتے ۔یہ سعادت مجھے اپنے والدِ گرامی پروفیسر حمید کوثر کی وجہ سے حاصل ہُوئی‘‘۔
میرے سامنے جِس محفل میں ’’ قومی ترانہ‘‘ بجایا گیا مَیں نے اُسے کھڑے ہو کر عقیدت سے سُنا ۔ ایک بار ماہر اقبالِیات پروفیسر منّور مرزا مجھے اپنے ساتھ حفیظ صاحب کے گھر لے گئے ۔ اُنہوں نے میرا تعارف اپنے بردرِ خُورد کے طور پر کرایا ۔ حفیظ صاحب نے کہا ’’عزیزم اثر چوہان صاحب! مَیں بھی راجپوت چوہان ہُوں‘‘۔ مَیں نے عرض کِیا کہ ’’ مَیں جانتا ہُوں۔ مجھے خوشی ہے کہ ’’قائداعظم راجپوت تھے اور قومی ترانہ لِکھنے کا اعزاز بھی ایک راجپوت کو حاصل ہُوا ہے‘‘۔ پروفیسر منّور مرزا کے والد صاحب تحریکِ پاکستان کے کارکن ریٹائرڈ ہیڈ ماسٹرمرزا ہاشم اُلدّین خان سرگودھا شہر میں ہمارے پڑوسی تھے ۔ میرے والد صاحب کی اُن سے دوستی تھی۔ مرزا صاحب کا چھوٹا بیٹا مظفر مرزا بچپن سے میرا دوست اور گورنمنٹ کالج سرگودھا میں بی اے تک میرا کلاس فیلو رہا۔
مَیں اسلام آباد سے جب بھی لاہور جاتا تو ڈاکٹر مجید نظامی صاحب کے بسائے ہُوئے ’’ ڈیرے‘‘ (ایوانِ کارکنانِ پاکستان) میں سیّد شاہد رشید کے کمرے میں میری مظفر مرزا (مرحوم) سے ملاقاتیں ہوتی رہیں ۔ ہم دونوں صِرف محفلوں میں ایک دوسرے کو ’’آپ‘‘ کہہ کر مُخاطب کِیا کرتے تھے ۔ پروفیسر مظفر مرزا نے سینٹ کی نشست کے لئے وزیراعظم نوازشریف کو مسلم لیگ کے ’’ پارٹی ٹکٹ‘‘ کے لئے درخواست دی تو مَیں نے اُس کی حمایت میں پنجابی میں نظم لِکھی ۔ ڈاکٹر مجید نظامی صاحب نے وہ نظم ’’ نوائے وقت ‘‘ کے کالم سرِ راہے‘‘ میں شائع کردی۔ ’’ نوائے وقت‘‘ کی تاریخ میں ادارتی صفحات پر پنجابی نظم کی اشاعت پہلی مرتبہ ہُوئی۔ 22 فروری 2014ء کو ڈاکٹر مجید نظامی صاحب نے ’’ مِلی نغمہ‘‘ لِکھنے پر مجھے ’’ شاعرِ نظریۂ پاکستان‘‘ کا خطاب دِیا ۔حفیظ جالندھری صاحب حیات ہوتے تو مَیں اُنہیں کہتا کہ ’’جنابِ والا! ’’شاعرِ نظریۂ پاکستان ‘‘ بھی راجپوت چوہان ہے‘‘۔
18 دسمبر 2013ء کو ایوانِ کارکنانِ تحریک پاکستان میں ’’کارکنانِ تحریک پاکستان ٹرسٹ‘‘ کی طرف سے ڈاکٹر مجید نظامی صاحب کی صدارت میں منعقدہ تقریب میں مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے تحریکِ پاکستان کے کارکنوں (یا اُن کے وارثوں ) کے گلے میں “گولڈ میڈل” ڈالے۔ میرے گلے میں میرے والد ِمرحوم رانا فضل چوہان کا گولڈ میڈل ڈالا گیا۔ 21 دسمبر کو شاف علی چوہان اسلام آباد آیا۔ اُس نے اپنی 11 ویں سالگرہ کا کیک کاٹا تو مَیں نے اُس کے گلے میں اُس کے پڑدادا (اپنے والد صاحب) کا گولڈ میڈل ڈال دِیا۔ اِس موقع پر مَیں نے اپنی دو بیٹیوں سائرہ قاسم مرزا اور عاصمہ معظم ریاض کی فرمائش پر اپنی دو نظمیں پڑھیں جو مَیں نے شاف علی چوہان کی پیدائش پر لِکھی تھیں۔ایک نظم کا مطلع تھا؎
’’ اللہ ! اللہ! ساڈے گھر وِچّ
خُوشیاں دا سامان آیا اے
رانا مُحکم خان دا چانن
شاف علی چوہان آیا اے‘‘
رانا محکم خان چوہان میرے پڑدادا تھے۔ میری دوسری نظم کے دو شعر ہیں ؎
’’پہلاں ہسیا ، فَیر مَیں رویا
میرا لہو ، امریکی ہویا
دادکے نانکے ، پاکستانی
امریکہ وِچّ ، دِلبر جانی‘‘
20 دسمبر 2013ء کو ’’ نوائے وقت‘‘ میں ’’ قائداعظم کا نورِ بصیرت ‘‘ کے عنوان سے مَیں نے کالم لِکھا ’’اِس یقین کے ساتھ کہ شاف علی چوہان بڑا ہو کر اور اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے اپنے گلے میں آویزاں اپنے پڑدادا کے گولڈ میڈل کی برکت سے اِنشاء اللہ امریکہ میں قائداعظم کا نورِ بصِیرت عام کر دے گا ‘‘۔
14 اگست 2011 ء کو (یومِ آزادی ) کے موقع پر مَیں نیویارک میں تھا ۔ یومِ آزادی منانے کے لئے نیویارک کی “نساؤ کاؤنٹی” کے “آئزن ہاور پارک”میں مقامی انتظامیہ کے تعاون سے پاکستانی نژاد امریکیوں کی مختلف تنظیموں نے ایک عظیم اُلشان اجتماع کا اہتمام کِیا تھا ۔ مَیں ذوالفقار علی چوہان اور دونوں پوتوں شاف علی چوہان اور عزم علی چوہان کے ساتھ آئزن ہاور پارک میں داخل ہُوا ۔ جب مَیں نے وہاں مختلف رنگ اور تراش کے لباس پہنے ہُوئے ہر عُمر کے خواتین و حضرات اور بچوں کو ایک دوسروں کو مبارک باد دیتے ہُوئے اُن کے دمکتے ہُوئے چہرے دیکھے تو میرا ایمان تازہ ہوگیا ۔ وقفوں وقفوں سے میرے دونوں پوتوں نے اپنے ہم عُمر اور بڑی عُمر کے بچوں کے ساتھ ، اپنے دونوں ہاتھ بلند کر کے ’’پاکستان زندہ باد اور قائدِاعظم زندہ باد‘‘ کے نعرے لگائے تو مَیں خوشی سے نہال ہوگیا ۔ ذوالفقار کے دو دوستوں (کراچی کے ) کوکبؔ مشتاق اور گوجرانوالہ کے عِصمت اُللہ ڈوگر نے مجھ سے کہا کہ ’’انکل! آپ بھی نعرے لگائیں ۔ مَیںنے بھی اپنے دونوں ہاتھ بلند کر کے ’’ پاکستان زندہ باد‘‘ اور ’’ قائداعظم زندہ باد‘‘ کا نعرہ لگایا تو مَیں آبدیدہ ہوگیا ۔ ذوالفقار ، اُس کے دونوں دوست اور میرے دونوں پوتے مجھ سے لِپٹ گئے ۔ مجھے اپنے والد صاحب اور نابھہ ، پٹیالہ اور امرتسر میں شہید ہونے والے اپنے خاندان کے 26 افراد یاد آگئے۔
15جون 2016ء کو ذوالفقار علی چوہان نے مجھے ٹیلی فون پر بتایا کہ ’’شاف علی چوہان کو صدر براک اوبامہ کے دستخطوں سے “مثال تعلیمی خوبیاں ایجوکیشن ایوارڈ” مِلا ہے‘‘ تو مَیں آبدیدہ ہوگیا۔ میرا سر فخر سے بلند ہوگیا اور مجھے یقین ہوگیا کہ 21 دسمبر کو امریکہ میں پیدا ہونے والا میرا نبیّرہ اوّل ایک نہ ایک دِن امریکہ میں قائداعظم کا ’’نور بصیرت‘‘ ضرور عام کردے گا۔21 دسمبر 2016ء کو مَیں نے سوچا کہ مَیں شاف علی چوہان سے کہوں گا کہ وہ 21 دسمبر کو اپنی سالگرہ کا کیک کاٹنے سے پہلے ’’ خالقِ قومی ترانہ ‘‘ کے لئے فاتحہ خوانی کا اہتمام بھی کِیا کرے !۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website