برلن: جرمن چانسلر اینجلا مرکل نے نئے سال کے موقع پر اپنے پیغام پر کہا ہے کہ جرمنی کو سب سے بڑا خطرہ اسلام کے نام پر شدت پسندی سے ہے۔
برطانوی نشریاتی ادارے ’بی بی سی‘ کی رپورٹ کے مطابق برلن میں تیونسی تارک وطن کے ہولناک ٹرک حملے کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’وہ لوگ جو یہاں تحفظ کی غرض سے آتے ہیں انہیں یہاں ایسی کارروائیاں کرتے ہوئے دیکھنا انتہائی تکلیف دہ ہوتا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ سال 2016 ’سنگین مراحل‘ سے بھرا رہا، لیکن جرمنی ان تمام مراحل پر سبقت حاصل کر لے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم جب معمول کے مطابق اپنی زندگیاں جیتے ہیں اور کام پر جاتے ہیں تب ہم دہشت گردوں کو یہ پیغام دے رہے ہوتے ہیں کہ تم شدید ناگوار قاتل ہو، مگر تم ہمیں نہیں بتاسکتے کہ ہمیں کس طرح زندگی گزارنی ہے اور کس طرح گزارنی چاہیے، ہم آزاد ہیں، دوسروں کا خیال رکھنے والے ہیں اور ہمارے دروازے دوسروں کے لیے کھلے ہیں۔‘
یہ بھی پڑھیں: سائنسدان ناپید ہونیوالی گائے کے ارتقاء کے قریب
یاد رہے کہ دو ہفتے قبل انیس امری نامی شخص نے برلن کی کرسمس مارکیٹ میں لوگوں کی ایک بھیڑ کی جانب ٹرک چلا دیا تھا، جس کے نتیجے میں 12 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
قبل ازیں رواں سال کے آغاز میں ایک نوجوان افغان تارک وطن نے وزربرگ میں ٹرین میں سوار 5 افراد کو کلہاڑی کے وار سے زخمی کردیا تھا جبکہ ایک شامی باشندے نے، جس کی پناہ کی درخواست مسترد کر دی گئی تھی، انزبیک میں بار کے باہر خود کو دھماکے سے اڑا لیا تھا جس کے نتیجے میں 15 افراد زخمی ہوئے۔
ان حملوں کے بعد جرمن چانسلر اینجلا مرکل کو 2015 میں 10 لاکھ سے زائد پناہ گزینوں اور تارکین وطن کو جرمنی آنے کی اجازت کی پالیسی پر چند حلقوں کی جانب سے تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا۔
مزید پڑھیں: روبوٹ نے کسٹمر سروسز کی ذمہ داریاں سنبھال لیں
تاہم جرمن چانسلر نے نئے سال کے موقع پر اپنے پیغام میں کہا کہ ’شامی شہر حلب، جہاں شامی حکومت کی افواج نے باغیوں کو مہینوں تک لڑائی کے بعد باہر دھکیل دیا تھا، وہاں ہولناک تباہی کی تصاویر دیکھنے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس خانہ جنگی سے بھاگ آنے والوں کو جرمنی میں پناہ دینا کس قدر ضروری اور درست تھا۔
انہوں نے کہا کہ ’یہ خصوصیت ہماری جمہوریت، قانون کی پاسداری اور روایتوں کو ظاہر کرتی ہے، یہ ناگوار دہشت گردی کی دنیا کے منافی ہے اور دہشت گردی سے زیادہ مضبوط بھی ثابت ہو گی، ہم سب ایک ساتھ ہیں تو مضبوط ہیں، ہماری ریاست بھی مضبوط ہے۔’