واشنگٹن: یوں لگتا ہے جیسے حالیہ امریکی انتخابات، روس اور امریکہ کے درمیان ایک نئی سرد جنگ کا نقطہ آغاز بن گئے ہیں البتہ اس سرد جنگ کا تعلق ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر منتخب ہوجانے اور اقتدار سنبھالنے سے پہلے ہی روس کے مقتدر حلقوں کے ساتھ پینگیں بڑھانے سے ہے۔
بین الاقوامی خبر رساں ایجنسیوں کے مطابق امریکی سی آئی اے نے امریکی انتخابات میں روسی ہیکروں کی مبینہ دخل اندازی کا مقصد جاننے کےلئے اپنی رپورٹ کو حتمی شکل دے دی ہے جسے ایک ہفتے میں اعلی حکام کو پیش کردیا جائے گا۔واضح رہے کہ وائٹ ہاؤس میں مزید چند دن کے مہمان، امریکی صدر براک اوباما پہلے ہی امریکی انتخابات میں ہلیری کلنٹن کی شکست پر روس کو موردِ الزام ٹھہرا چکے ہیں جبکہ اس حوالے سے 35 روسیوں کو بھی امریکہ بدر کیا جاچکا ہے۔ اس معاملے میں ’’بیرونی مداخلت‘‘ کی ایک رپورٹ گزشتہ جمعرات براک اوباما کو پیش بھی کی جاچکی ہے۔یہ رپورٹ آج نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سامنے پیش کی جائے گی جبکہ اس رپورٹ کے کچھ ’’غیر خفیہ‘‘ (نان کلاسیفائیڈ) حصے بھی اگلے ایک ہفتے کے دوران عام کردیئے جائیں گے۔روسی حکام ایسی کسی بھی مداخلت سے مسلسل انکاری ہیں لیکن دوسری جانب سے امریکا کے سیکیوریٹی اداروں کا اصرار مسلسل جاری ہے۔معلوم ہوا ہے کہ امریکا میں انٹیلی جنس اداروں نے امریکی انتخابات میں روسی ہیکروں کی مداخلت کے مقاصد جاننے کےلئے ڈیموکریٹک پارٹی اور روسی صدر ولادی میر پیوٹن کی ای میلز بھی ہیک کی ہیں اور اب وہ معاملے کی تہہ تک پہنچ چکے ہیں۔حالیہ امریکی صدارتی انتخابات میں ہیکروں کے ذریعے مبینہ روسی مداخلت پر سوال جواب کےلئے جمعرات کے روز سی آئی اے کے اعلی عہدیدار بھی جمعرات کے روز کانگریس کے سامنے پیش ہوئے تھے۔امریکی معاشرے پر گہری نظر رکھنے والے ناقدین پہلے ہی یہ پیش گوئی کرچکے تھے اگر امریکی صدارتی انتخابات میں دھاندلی نہ ہوئی تو ڈونلڈ ٹرمپ کا جیت جانا یقینی ہے جس کی وجہ عام امریکی شہریوں میں غیرملکیوں اور خاص طور پر مسلمانوں کے خلاف مسلسل بڑھتے ہوئے نفرت انگیز جذبات ہیں۔