پاکستان کرکٹ بورڈ ان دنوں کئی سمت سے ریڈار میں دکھائی دیتا ہے، ٹیم کی دورہ نیوزی لینڈ اورآسٹریلیا میں منہ چڑاتی کارکردگی، ڈومیسٹک سرکٹ پر اس سال بھی اٹھنے والے سوالات جو روز کوئی شوشہ چھوڑتے دکھائی دیتے ہیں اور سب سے زیادہ بورڈ کی اعلی کمان سے متعلق یہ سوالات کہ طاقتور کون ؟؟چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ شہریار خان یا چیئرمین پی سی بی ایگزیکٹو کمیٹی نجم سیٹھی؟
دونوں سے متعلق دوسرا بڑا سوال کہ یہ دونوں ایک پیج پر ہیں بھی یا نہیں ؟ گو کہ دونوں کا ایک پیج پرہونا انتہائی ضروری ہے مگر شاید یہ کہنا خاصہ مشکل ہے کہ نجم سیٹھی جن کی خواہش پر شہر یار خان نے چیئرمین پی سی بی کی اہم ذمہ داریاں سنبھالیں ایک پیچ پر ہیں، اس کی حالیہ مثال سابق ٹیسٹ کرکٹر باسط علی اور سابق انٹرنیشنل کرکٹر محمود حامد کے درمیان المعروف تھپڑ اسکینڈل ہے ۔
چیئرمین کو پی سی بی گورننگ بورڈ نے اختیار دیا کہ وہ باسط علی اور محمود حامد کے معاملے پر فیصلہ کریں، شہر یار خان نے دونوں کا موقف سننے کے بعد باسط علی کو بحیثیت ہیڈ کوچ پاکستان ویمنز ٹیم اور چیئرمین جونیئر سلیکشن کمیٹی فارغ کر دیا۔چیئرمین پی سی بی کا فیصلہ بلا شبہ خاصہ سخت تھا باسط علی کو کسی ایک ذمہ داری سے ہٹا کر سزا دی جا سکتی تھی مگر انہوں نے باسط علی کو دونوں عہدوں سے فارغ کردیا۔
اپنے فیصلے کے ٹھیک دو دن بعد پی سی بی نے ایک پریس ریلیز کے ذریعے باسط علی کو بحیثیت چیئرمین جونیئر سلیکشن کمیٹی بحال کرکے سب کو حیران کر دیا۔
اگر باسط علی کو دو دن بعد بحال کرنا تھا تو پھر انہیں ہٹانے کی کیا ضرورت تھی، کیا پی سی بی کے چیئرمین نے جو فیصلہ کیا تھا وہ غلط تھا ؟ ۔۔۔یا پھر ان سے بڑی کرکٹ بورڈ میں کون اتھارٹی ہے جس نے مکمل پاور رکھنے والے شہر یار خان کو فیصلے کو واپس لینے پر مجبور کیاکیونکہ آئینی طور پر یہ اختیار تو صرف چیئرمین پی سی بی کا ہے۔
اس تمام واقعے کا سب سے حیران کن اور افسوسناک پہلو یہ تھا کہ جیو سوپر کے ٹی وی پروگرام ’یہ ہے کرکٹ پاکستان ‘میں۔۔۔تنقید کی وجہ سے باسط علی نے نیشنل اسٹیڈیم کراچی میں محمود حامد کو تھپر مارا ۔۔۔۔
اس واقعے کے ایک ہی عینی شاہد تھے سابق ٹیسٹ کرکٹر اور سوئی گیس کے کوچ عتیق الزماں ۔۔۔چیئرمین پی سی بی شہر یار خان نے واقعے کی کتنی سنجیدہ تحقیقات کی ہوں گ اس کا اندازہ صرف ایک بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ شہر یار خان نے واحد عینی شاہد کو گواہی کیلئے مدعو کرنا بھی ضروری نہ سمجھا۔
واہ رے کرکٹ بورڈ اور اس کے اعلیٰ حکام ۔۔آپ کے ہر کام ہی نرالے ہوتے ہیں اور اس واقعے میں جس طرح کا رویہ اختیار کیا گیا وہ کسی ذی شعور شخص کیلئے قابل قبول ہر گز نہیں ہے۔ واحد عینی شاہد کی بھی گواہی جہاں ضروری نہ سمجھی جائے، دو دن قبل کیا جانے والا اپنا ہی فیصلہ واپس لے لیا جائے، جب ادارے کے سربراہان کی حیثیت رکھنے والے افراد سے ایسے فیصلے ہوں گے پھر ٹیم چاہے جو بھی کر لے اس سے پوچھنے والا کون ہے۔
تھپڑ کی تکلیف تو شاید ختم ہو گئی ہو مگر اس کے احساس سے ملک کی نمائندگی کرنے والا محمود حامد آ ج بھی تڑپ رہا ہے اور شاید بورڈ میں باسط علی خیر خواہ شاید اب ان پر ہنس بھی رہے ہوں مگر اس ایپی سوڈ سے ایک مرتبہ پھر اس سوال کا جواب ضرور مل گیا کہ کرکٹ بورڈ کون چلا رہا ہے ، کس کے اختیارات ہیں ، یا طاقتور کون ہے شہر یار خان یا کوئی اور۔۔۔۔۔