حال ہی میں ’’لاپتہ‘‘ ہوئے چند نوجوانوں کے حوالے سے میں نے انتہائی محتاط زبان اور غیر جذباتی انداز میں جو کالم لکھا،اس نے انٹرنیٹ پر متحرک چند افراد کو ناراض کردیا ہے۔ مجھے خبر نہیں کہ یہ لوگ اپنے اصل نام استعمال کررہے ہیں یا نہیں۔ اسلام اور پاکستان سے یہ لوگ البتہ والہانہ محبت کرنے کے بہت دعوے دار ہیں۔ ان کی ٹائم لائن پر جائیں تو احساس ہوتا ہے کہ پاکستان کے نام نہاد پڑھے لکھے لوگ ان قربانیوں کا پوری طرح احساس نہیں کر پائے جو دفاعی اور قومی سلامتی سے متعلق اداروں کے لوگ اس ملک کی سلامتی اور اس کے اساسی نظریے کے تحفظ کی خاطر دئیے چلے جارہے ہیں۔انہیں بہت رنج ہے کہ چند لوگ، جو بقول انکے ہماری ’’مذہبی‘‘ روایات کا مسلسل مذاق اُڑارہے تھے اب ’’حکومتی ایجنسیوں‘‘ کے قابو میں آئے ہیں تو خود کو ’’لبرل‘‘کہلاتی مخلوق بلبلااُٹھی ہے۔ وہ جسے ’’موم بتی مافیا‘‘ کہا جاتا ہے،ایک بار پھر لاہور،کراچی اور اسلام آباد کے پریس کلبوں کے باہر بینرز وغیرہ لے کر کھڑا ہوگیا ہے۔
مجھ سے ناراض ہوئے لوگوں کا اصرار ہے کہ ’’لاپتہ‘‘ ہوئے افراد مبینہ طورپر سوشل میڈیا پر ’’توہینِ مذہب‘‘ کا ارتکاب کررہے تھے۔ حکومت کو چاہیے کہ فی الفور ان کے ’’کافرانہ کرتوتوں‘‘ کو منظرعام پر لائے۔ مجھ سے ناراض ہوئے لوگوں کو یقین ہے کہ ’’لاپتہ‘‘ ہوئے لوگوں کی’’کافرانہ‘‘حرکتیں لوگوں کے سامنے آگئیں تو یہ لوگ اپنے گھروں میں لوٹ کر بھی منہ چھپاتے پھریں گے۔ عوام کے غیض وغضب سے بچنے کی راہ تلاش کرنے پر مجبور ہوجائیں گے۔
مجھ سے ناراض ہوئے لوگوں کے غصے سے میں گھبراگیا ہوں۔ سمجھ نہیں آرہی کہ انہیں کیسے سمجھائوں کہ میرے اپنے کوئی خیالات ونظریات وغیرہ ہرگز نہیں ہیں۔ذات کا رپورٹر ہوں۔ سیاست پر لکھتا رہا ہوں۔ جن صحافتی اداروں کے لئے کام کرتا رہا وہاں کے مدیروں کو جانے کیسے شبہ ہوا کہ میں خارجہ امور کے بارے میں بھی رپورٹنگ وغیرہ کرسکتا ہوں۔ خود پر اس ضمن میں بہت اعتماد نہ کرنے کے باوجود میں نوکری بچانے کے لئے خارجہ امور کے بارے میں بھی خبریں تلاش کرنے پر مجبور ہوگیا۔
رپورٹنگ ایک تھکادینے والا دھندا ہے۔باخبر افراد سے تعلق بنانا اور اسے برقرار رکھنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ یہ کام کرتے ہوئے آپ کو ایک انگریزی محاورے کے مطابق ہمہ وقت اپنی انگلیوں پر کھڑے رہنا پڑتا ہے۔ تھکادینے والی اس مستعدی کے باوجود اکثر آپ سے اہم خبریں مس ہوجاتی ہیں۔ کسی اور ادارے کے کسی رپورٹر کی طرف سے کوئی خصوصی فائل ہوجائے تو کئی روز تک آپ اپنے ادارے میں جاتے ہوئے گھبراتے ہیں۔ شرمسار سے رہتے ہیں۔میری ہمت جب رپورٹروں والی مستعدی برقرار رکھنے کے حوالے سے جواب دینا شروع ہوگئی تو ربّ کریم نے جو پتھر میں بند کیڑے کو بھی رزق فراہم کرتا ہے، پاکستان میں ۲۴ْ/۷ چینل متعارف کروا دئیے۔ میں نے رپورٹنگ کی بجائے ایک سکرین پر جاکر پھکڑپن شروع کردیا۔اس پھکڑپن کی تھوڑی پذیرائی بھی ہوگئی۔
۱۹۷۵ء سے ۲۰۰۰ء کا سن شروع ہوجانے تک میں نے کبھی پچاس ہزار سے زیادہ روپے اکٹھے نہیں دیکھے تھے۔ سگریٹ کا پیکٹ ختم ہوجانے کے بعد نیاپیکٹ خریدنے سے پہلے میں کافی دیر تک اپنے ساتھیوں کے پیکٹ میں ڈھٹائی سے ہاتھ ڈال دیا کرتا تھا۔ گاڑی زیادہ تر اپنے گھر میں کھڑی رکھتا۔ کوشش ہوتی کہ لوگوں سے رابطہ دفتر کے فون ہی سے کیا جائے۔رزق کی تنگی کا زیادہ احساس اس لئے نہ ہوپایا کہ میری بیوی بھی محنت ودیانت سے کام کرتے ہوئے گھر کے خرچ میں اپنا حصہ ڈال رہی تھی۔ اس کی مہربانی سے سفید پوشی کا بھرم برقرار رہا۔
ٹی وی سکرین پر پھکڑپن کی وجہ سے مگر مجھے زندگی میں پہلی بار ایک لاکھ سے زیادہ کی رقم نقد نہیں بلکہ چیک کی صورت ملنا شروع ہوگئی۔ بتدریج ایک نہیں دو ڈیبٹ کارڈز بھی نصیب ہوگئے۔ چہرے پر رونق آنا شروع ہوگئی۔ ٹی وی سکرین پر اپنی پذیرائی سے مجھے یہ گماں بھی ہوا کہ اخبارات کے لئے بھی رپورٹنگ کی بجائے کالم لکھ کر کچھ خیالات بھاشن کی صورت بیان کئے جائیں تو رزق میں مزید کشادگی آجائے گی۔ مسلسل لکھنے کی وجہ سے شاید میرا شمار دانشوروں میں بھی ہونا شروع ہوجائے۔ مجھے سیمیناروں میں شرکت کی دعوتیں ملیں۔ وزیراعظم اپنے ساتھ غیر ملکی دوروں پر لے جانا شروع ہوجائیں۔ ریاستی ادارے اہم امور کے بارے میں آف دی ریکارڈ بریفنگ وغیرہ کے لئے مدعو کریں۔
میرا کالم اب باقاعدگی سے چھپتا ہے۔ میری تصویر کے ساتھ۔ اس کا معاوضہ بھی باقاعدگی سے ہر ماہ چیک کی صورت میرے بینک اکائونٹ میں جمع ہوجاتا ہے۔ میرے اپنے کوئی ذاتی خیالات مگر اب بھی نہیں ہیں۔ جس شے کو لوگوں کی اکثریت اچھا سمجھتی ہے، میں بھی اسے پسند کرتا ہوں۔عمران خان صاحب کی مقبولیت کا دل سے احترام کرتا ہوں۔ان کے چاہنے والے جب مجھے ’’لفافہ‘‘ وغیرہ کہتے ہیں تو پریشان ہوجاتا ہوں۔ مجھے کسی امر کے بارے میں ’’لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے‘‘ کا بالکل یقین نہیں ہے۔ میرا بلکہ اصرار ہے کہ مطمئن زندگی گزارنے کے لئے اپنے بچنے کی فکر جھٹ پٹ کرنا ضروری ہے۔ مجھے پتھر میں بند ہوا ایک کیڑا سمجھیں جس پر ربّ کسی نہ کسی وجہ سے مہربان ہوگیا اور مناسب رزق کا بندوبست کردیا۔
میری حماقت کہ منگل کی صبح اُٹھ کر یہ کالم لکھنے بیٹھا تو ’’لاپتہ‘‘ افراد کے علاوہ کوئی اور موضوع ذہن میں نہ آیا۔ اس معاملے کی وجہ سے عالمی اخبارات میں پاکستان کے بارے میں جو منفی تاثر بنایا جارہا تھا اس کے بارے میں ذہن پریشان ہوگیا۔ یاد آگیا کہ کیسے ۱۹۸۴ء میں پہلی بار بھارت پہنچنے کے بعد میں بطور پاکستانی صحافی بہت فخر سے بھارتی صحافیوں کا سامنا کرتا رہا تھا۔ اپنے لوگوں کے دلوں میں مسلسل موجود گرمی یاد آتی رہی اور روح کی تڑپ بھی۔ اسی حوالے سے حبیب جالب بھی یاد آگیا۔اس کا ذکرکرتے ہوئے میں بے وقوف مگر بھول گیا کہ ’’ایسے دستور کو‘‘نہ ماننے والے کا تاعمر رہنے کے لئے کوئی مناسب ٹھکانہ بھی نہیں تھا۔ اس کی موت کے بعد بھی اس کا خاندان دربدر ہی رہا۔
یہ دور ناپ تول کر سچ بولنے کا دور ہے۔ ہمارے لکھنے اوربولنے والوں کو ویسے بھی پانامہ مل چکا ہے۔ اس کے ہوتے ہوئے آپ کو مسلسل اس بات پر زور دیتے رہنا چاہیے کہ ہمارے ملک کی سیاست اب زروالوں کے ہاتھ آچکی ہے۔ وہ ریاستی عہدوں کو اپنی دولت بڑھانے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ اس دولت کو چھپایا جاتا ہے اور پھر کسی نہ کسی بہانے غیر ممالک کو منتقل۔وہاں آف شور کمپنیوں کے ذریعے قیمتی جائیدادیں خریدی جاتی ہیں۔
میرے قلم اور زبان کو ’’قوم کی لوٹی ہوئی دولت‘‘ کو وطن لانے کی کاوشوں میں استعمال ہونا چاہیے۔ فی الوقت اس معاملے کے علاوہ کسی اور قضیے کا تذکرہ بلکہ ’’بدعنوان اور نااہل سیاست دانوں‘‘ کی کرتوتوں سے توجہ ہٹانے کا باعث بن سکتا ہے۔ مجھے سیاست دانوں کا ’’سہولت کار‘‘نہیں بننا چاہیے۔کچھ لوگ’’لاپتہ‘‘ہوئے ہیں تو یقینا انہوں نے کوئی ’’غلط کام‘‘ کیا ہوگا۔ میری ’’لاپتہ‘‘ ہوئے لوگوںسے کوئی رشتے داری،کوئی واسطہ ہرگز نہیں۔ وہ جانیں اور ان کے عزیز و رشتے دار جانیں۔
دھوپ ویسے بھی آج بہت چمک رہی ہے۔ یہ کالم لکھنے کے بعد آج کی روزی کا بندوبست بھی ہوگیا۔ لان میں جا کر ملازم کو آواز دے کر کرسی اور میز لگوائی جائے۔ اس موسم میں چائے کے گرم کپ کے ساتھ اپنی پسند کی موسیقی سے بہت لطف اندوز ہوا جا سکتا ہے۔