پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پاناما لیکس جیسا کوئی مالیاتی اسکینڈل نظر نہیں آتا۔ اس اسکینڈل کی وجہ سے پاکستان کی سیاست ایک بھونچال کا شکار ہے۔ اس اسکینڈل کے حوالے سے اگرچہ ساری حزب اختلاف حکومت کے خلاف صف بستہ نظر آتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ سوائے عمران خان کی تحریک انصاف کے حقیقی معنوں میں حکومت کی کوئی رقیب نہیں ہے۔
پیپلز پارٹی کی جواں سال جواں حوصلہ قیادت اگرچہ کہ زبانی کلامی حکومت کے خلاف خوب بڑھکیں مارتی نظر آتی ہے لیکن اس کی ماضی کی مفاہمتی سیاست اور سیاسی مفادات اسے زبانی کلامی بڑھکوں سے آگے جانے نہیں دے سکتے۔ اس حوالے سے دوسری منظم جماعت، جماعت اسلامی ہے، جو حزب اختلاف کی ایک موثر طاقت بن سکتی ہے۔ لیکن جماعت اسلامی کی غیر معمولی محتاط خصوصاً حکومت کی مخالفت کے حوالے سے پالیسیاں اسے کبھی عمران خان کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے نہیں دے سکتیں۔ جماعت اسلامی کے علاوہ کوئی ایسی منظم اور طاقتور جماعت نہیں ہے جو عمران خان کی طاقت میں اضافہ کرسکے۔
پاناما لیکس اب سپریم کورٹ کی تحویل میں ہے۔ سپریم کورٹ ملک کا اعلیٰ ترین عدلیاتی ادارہ ہے۔ اس حوالے سے دلچسپ بات یہ ہے کہ دونوں ہی فریق اعلان کر رہے ہیں کہ وہ سپریم کورٹ کے فیصلے کو تسلیم کریں گے۔ ادھر عوام کی نظریں بھی سپریم کورٹ پر لگی ہوئی ہیں۔ میڈیا کا کردار بھی عمومی طور پر حکومت مخالف ہی نظر آتا ہے۔ سوائے سرکاری ٹی وی کے سارے چینل پاناما لیکس کے حوالے سے حکومت کے خلاف مورچہ زن نظر آتے ہیں۔ ایک شور ہے ۔کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی، محسوس ہوتا ہے دو درجن میڈیائی عدالتیں قائم ہیں، اس صورتحال کی وجہ سے حکومت سخت دباؤ میں نظر آتی ہے۔
حکومت دو محاذوں پر پاناما لیکس کے محاذ پر سرگرم نظر آتی ہے، ایک قانونی محاذ اور دوسرا ترقیاتی سرگرمیوں کا محاذ۔ قانونی محاذ پر حکومت مقدور بھر کوشش کر رہی ہے کہ وہ تحریک انصاف کے ہر وار کا ممکنہ حد تک بھرپور جواب دے، اس محاذ پر وفاقی وزرا کی پوری ٹیم تمام ہتھیاروں سے لیس عمران خان کا مقابلہ کرتی نظر آرہی ہے۔ وزیراعظم نے اس محاذ پر اپنی گرفت مضبوط رکھنے کے لیے اقربا پروری کے الزامات کو پس پشت ڈالتے ہوئے اپنی صاحبزادی مریم نواز کو میڈیا کے محاذ پر عمران خان کا مقابلہ کرنے کے لیے کھڑا کردیا ہے۔
مریم نواز اگرچہ پاناما لیکس اسکینڈل کے مسئلے پر ایک فریق بن چکی ہیں لیکن وہ پورا زور لگا رہی ہیں کہ اس محاذ پر عمران خان کا ڈٹ کر مقابلہ کریں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ میڈیا پاناما لیکس کے حوالے مجموعی طور پر عمران خان کی پشت پر نظر آرہا ہے، اس تناظر میں مریم نواز کی کوشش کے باوجود ان کی آواز نقار خانے میں طوطی کی آواز سے زیادہ اہم نظر نہیں آرہی ہے۔
اسلام آباد کی دھرنا تحریک کے بعد عمران خان نے پاناما لیکس پر اپنا سارا زور لگادیا اور اگر وہ اسی سیاسی طاقت کا بھرپور استعمال کرتے تو اس بات کا امکان تھا کہ وہ حکومت کے لیے سخت مشکلات پیدا کرسکتے تھے، لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ ان کے بعض قریبی ساتھیوں بلکہ دست راست پر بھی پاناما لیکس میں ملوث ہونے اور مالیاتی بے قاعدگیوں کے الزامات کی وجہ سے عمران خان کو اس محاذ سے پسپائی کا سامنا کرنا پڑا۔ سیاسی محاذ پر پسپائی کی دوسری بڑی وجہ سیاسی جماعتوں کا اس حوالے سے انتہائی محتاط رویہ ہے۔
پختونخوا میں جماعت اسلامی تحریک انصاف کی حکومت کا حصہ بنی ہوئی ہے لیکن وہ بھی پی پی پی کی طرح بڑھکیں مارنے سے زیادہ حکومت کے خلاف جانے کے لیے تیار نظر نہیں آتی۔ پیپلز پارٹی کے جواں سال رہنما بلاول بھٹو پاکستانی سیاست میں زرداری کی سیاست کی وجہ سے جس طرح آخری بینچوں پر آگئی تھی اسے دوبارہ فرنٹ پر لانے کے لیے بہت زور لگا رہے ہیں اور حکومت کے خلاف تند و تیز بیانات بھی دے رہے ہیں۔
لیکن المیہ یہ ہے کہ پاکستان جس اشرافیائی سیاست کے دائرے میں 69 سال سے چکر لگا رہا ہے، اس اشرافیائی سیاست میں اشرافیائی جماعتیں حقیقی معنوں میں ایک دوسرے کی رقیب ہو ہی نہیں سکتیں۔ اگر ان میں رقابت ہو بھی تو وہ اقتدار کی رقابت ہوسکتی ہے لیکن ہماری اشرافیائی جماعتیں اس حوالے سے اس قدر محتاط اور حساس ہیں کہ انھوں نے اقتداری کشمکش کو حدود کے اندر رکھنے کے لیے باری باری کا کلچر روشناس کرایا، تاکہ اقتدار ان کے ہاتھوں سے باہر نہ جاسکے۔ مشکل یہ ہے کہ جواں سال اور قیادت اور مقبولیت کی امنگوں سے بھرپور بلاول کے راستے میں خود ان کے والد بزرگوار کھڑے نظر آتے ہیں ۔
پاناما لیکس کے حوالے سے سپریم کورٹ کا فیصلہ کیا ہوگا اس حوالے سے حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا، لیکن پاناما لیکس جن مرحلوں سے گزرتا ہوا یہاں تک پہنچا ہے اور اس حوالے سے میڈیا سے جو کردار ادا کیا ہے اس کے پس منظر میں عوامی فیصلہ آچکا ہے۔ اگر اس حوالے سے حکومتی عمائدین کو کوئی غلط فہمی ہو تو وہ پاناما لیکس پر ریفرنڈم کروا سکتے ہیں۔ پھر قانونی جنگ بے جواز ہوکر رہ جائے گی۔ عزت اور ذلت اگر حکمرانوں کے اقتدار کی کسوٹی ہے تو پھر ہمارے حکمرانوں کو ان دو میں سے یعنی عزت اور اقتدار میں سے کسی ایک کو قبول کرنا پڑے گا، اس کے علاوہ باقی سب بے معنی باتیں ہیں۔