رخسانہ نور ایک صابر شاکر خاتون تھی۔ عجز و انکساری اور خلوص اس کی شخصیت کا خاصہ تھا۔ بدھ کے روز میسج بھیجا کہ جاگ رہی ہیں، کال کر سکتی ہوں۔ میں نے فوری جواب دیا، ضرور۔ اور رخسانہ کی آخری کال آئی۔ اپنی کسی دوست کی بچی کے رشتے کے لئے بات کرتی رہیں۔ خدمت خلق کا جذبہ ہمیں ایک دوسرے کے قریب لایا تھا۔ آخری گفتگومیں بھی کسی بچی کی شادی کا ذکر کرتی رہیں۔ طبعیت کا بتایا کہ بہتر ہے۔ بیٹیاں امریکہ واپس چلی گئی ہیں۔ شاہ جی کسی نئی فلم کے سلسلے میں کراچی گئے ہوئے ہیں۔ بیٹا شازل باہر نکلا ہے۔ کچن کا کچھ سامان خریدنے کے لئے نکلی ہوں۔ بہتر محسوس کر رہی ہوں۔میں نے بھی اپنے جذبات شیئر کئے کہ آپ کے کینسر کے علاج کی وجہ سے ملاقات سے گریز کرتی رہی کہ ڈاکٹرآپ کو لوگوں میں جانے سے منع کرتے ہیں مگر اب بہتر ہیں تو جلد ملاقات ہونی چاہیے۔ رخسانہ نے انشاء اللہ کہہ کر فون بند کردیا۔ دوسرے روز جمعرات کو سوچا رخسانہ سے اس بچی کے رشتے سے متعلق اپنی رائے شیئر کروں، لیکن فیس بک پر اچانک نظر پڑی تو رخسانہ کی تصویر کے نیچے انا للّٰہ و انا علیہ راجعون لکھا تھا۔ اس حادثے کو پانچ روز گزر چکے ہیں لیکن چند سطریں تحریر کرنا مشکل ہو رہا ہے۔ دنیا میں اگر بے اعتبار کوئی شے ہے تو وہ زندگی ہے۔ ابھی یہاں تھے لمحے میں وہاں ہیں۔ رخسانہ نور اپنے کالم اور گفتگو میں خود کہتی تھیں کہ طیبہ سے ان کی ملاقات ایک روحانی واقعہ ہے۔ رخسانہ میرے ہی اخبار نوائے وقت میں لکھتی تھیں لیکن میں لا علم تھی۔ بیرون ملک رہنے کی وجہ سے پاکستانی فلم انڈسٹری سے زیادہ واقفیت نہیں۔ مجھے تو یہ تک علم نہ تھا کہ رخسانہ سید نور کی اہلیہ ہیں۔ گزشتہ برس گرمیوں میں جب میں اپنی کتاب جھلی کے لئے کہانی لکھ رہی تھی تو نیویارک میں کسی صحافی دوست نے مشورہ دیا کہ جھلی کہانی پر تو کوئی ڈرامہ سیریل بنائی جا سکتی ہے۔ ایک سچی اور روحانی کہانی ہے۔ رخسانہ نور اچھی سکرپٹ رائٹر ہے ان سے بات کریں۔ میں نے رخسانہ نور کا نام سنا اور اتفاق سے اگلے ہی روز نوائے وقت میں رخسانہ کے کالم پر نظر بھی پڑ گئی۔ اس دوران یہ بھی علم ہوا کہ رخسانہ فلمساز سید نور کی بیوی ہیں۔ کالم پر دیئے گئے ان کے ای میل پر رابطہ کیا۔ رخسانہ نے فوری جواب دیا۔ پھر فون پر بات ہوئی۔ رخسانہ نے بتایا کہ وہ مجھے باقاعدگی سے پڑھتی ہیں۔ رخسانہ نیویارک آ رہی تھیں۔ میں نے انہیں اپنا مہمان بنانے کی پرزور دعوت دی جس کو انہوں نے خوشدلی سے قبول کر لیا۔ وہ ایک ہفتہ جو رخسانہ اور ان کے بیٹے شازل نے ہمارے ساتھ گزارا، ہماری دوستی اور پیار کو ایک ایسے بندھن میں باندھ گیا کہ رخسانہ کی جدائی کو دل قبول کرنے کو تیار نہیں۔ان دنوں میں نے ایک کالم لکھا جس میں رخسانہ کا ذکر خیر کیا کہ ’’معروف رائٹر اور شاعرہ رخسانہ نور آجکل نیویارک آئی ہوئی ہیں۔ مومنہ کے کمرے میں ٹھہری ہوئی ہیں۔ اس کمرے کا ماحول انہیں بھی احساس دلا رہا ہے کہ مومنہ ہمارے اطراف یہیں کہیں موجود ہے۔ رخسانہ نور نے نوائے وقت میں لکھنا شروع کیا ہے، نوائے وقت خاندان انہیں خوش آمدید کہتا ہے۔ دو لکھنے اور سوچنے والے جب اداسی کے موسم میں ملیں تو دل کا بوجھ ہلکا ہوجاتا ہے‘‘ رخسانہ نے مومنہ بیٹی کی یاد میں ایک کالم بعنوان ’’مومنہ۔۔ حدود وقت سے آگے‘‘ لکھ کر اس روحانی تعلق کو حیران کر دیا۔ رخسانہ بھی بیٹیوں کی ماں تھی، مومنہ کے واقعہ کو انہوں نے دل کی گہرائیوں سے محسوس کیا۔ اکثر اپنی بیٹیوں سے میری بات بھی کرواتیں۔ شازل بیٹا رخسانہ کی کائنات تھا۔ بتانے لگیں کہ امریکہ آتے ہوئے شاہ جی (ان کے شوہر ) نے کہا گھر میں کوئی قیمتی چیز نہ چھوڑ جانا، تو میں نے بیٹے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ میری ایک ہی قیمتی چیز ہے اور اس کو میں ساتھ لے جا رہی ہوں۔ آج میں غمگین ہوں کہ ماں کی قیمتی چیز اس کا اکلوتا چھوٹا لاڈلا بیٹا شازل ماں کے بغیر کتنا دْکھی ہو گا۔ بہنوں کا چہیتا اکلوتا بھائی شاید اب امریکہ چلا جائے۔ امریکہ تعلیم کے لئے اسے پسند تھا، بہنوں کے بچوں سے بھی خوب پیار کرتا ہے۔ بہنیں ممتا دینے کی کوشش کریں گی لیکن بہنوں کی سہیلی ماں کی کمی کو کون پورا کرے گا۔ رخسانہ نور نے کینسر کے ساتھ طویل اور تھکا دینے والی جنگ لڑی۔ میری گھر نیویارک میں ان پر اس مرض کا ایک اور مہلک حملہ ہوا۔ علاج کے لئے بیٹی کے پاس کیلیفورنیا چلی گئیں اور کئی ماہ کے بعد پاکستان لوٹ گئیں۔ لاہور ان کی رہائشگاہ پر بھی ملاقات ہوئی۔ رخسانہ کی نجی زندگی امتحانات سے بھری ہوئی تھی لیکن اس صابر عورت نے جب بھی دکھ سکھ کیا، ڈھکے چھپے الفاظ میں کیا۔ میرے ساتھ قلبی تعلق جڑ چکا تھا۔ ڈھیروں باتیں دل کی ہم ایک دوجے سے شیئر کیا کرتیں۔ رخسانہ بہت نرم دل خاتون تھیں۔ بیٹے شازل کے ہمراہ مومنہ کے مرقد پر گئیں تو مجھ سے چھپا کر اپنی پلکوں سے آنسو پونچھتی رہیں۔جن دنوں اپنی بیٹی کے پاس زیر علاج تھیں، ہسپتال سے فون کر کے بتایا کہ انہوں نے خواب میں مومنہ بیٹی کو دیکھا ہے۔ جس روز رخسانہ نے یہ خواب سنایا میرا دل وسوسوں میں ڈوب گیا۔ رخسانہ کی صحت کی طرف سے ایک دھڑکا لگا رہتا اور بالآخر وہ مجاہدہ خاتون دکھوں کا یہ جہان چھوڑ گئیں۔۔۔۔ البتہ اپنے پیچھے ایسی یادیں بھی چھوڑ گئی ہیں جو اس صوفی خاتون کو ہمیشہ زندہ رکھیں گی۔