سپریم کورٹ نے کمسن گھریلو ملازمہ طیبہ پر تشدد کے ازخود نوٹس کیس میں پولیس کو دس دن میں تحقیقات مکمل کر کے چالان پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے سماعت 25 جنوری تک ملتوی کردی ہے۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثارکی سربراہی میں2رکنی بنچ نے ازخود نوٹس کی سماعت کی۔کمرہ عدالت میں طیبہ اپنے والدین اعظم اور نصرت کے ساتھ موجود تھی جبکہ ایڈیشنل سیشن جج کی اہلیہ ماہین خرم عدالت میں پیش نہ ہوئیں، ان کے وکیل نے ضمانت کا حکم عدالت میں پیش کر دیا۔چیف جسٹس نےگھریلو ملازمہ طیبہ پر سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس کی سماعت میں ریمارکس دیئے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک مجرمانہ فعل ہوا ہے۔ ہمارے علم میں ہے کہ مقدمے کی کارروائی عجلت میں کی گئی۔ ایک بے بس معصوم بچی کو والدین کی جانب سے کام میں جھونکا گیا، کیا یہ جبری مشقت کے زمرے میں نہیں آتا؟جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ اس کیس میں چائلڈ لیبر، چائلڈ ابیوز اور والدین کا کردار بھی ہے۔ہیومن رائٹس کے وکیل جسٹس ریٹائرڈ طارق محمودنے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ چائلڈپروٹیکشن کا قانون بہت کمزور ہے۔ بچے کوملازمت پر رکھوانے والےوالدین کو50روپے جرمانہ ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ بچوں کا مار دو اور کہو جرم قابل ضمانت ہے، کیا آپ کو معلوم ہےہم نے عدالتی کارروائی کا ریکارڈ سیل کیوں کیا؟ بچی کے والدین کا تعین کیے بغیر اسے والدین کے حوالے کیا گیا۔زمردخان نے کہا کہ طیبہ سویٹ ہوم میں خوش ہے اورسویٹ ہوم میں بچوں میں گھل مل گئی ہے، جب تک ڈی این اےکی حتمی رپورٹ نہیں آتی، طیبہ سویٹ ہوم میں رہےگی۔ خواہش ہےکہ طیبہ کوپڑھا کر بیرسٹربناوں۔پولیس حکام نے کہا کہ تحقیقات مکمل کرنے میں ابھی کچھ وقت لگے گا۔ ڈی این اےرپورٹ جمع کرانےمیں مزید دو تین دن لگ سکتے ہیں۔چیف جسٹس ثاقب نثار نے پولیس کوچالان جمع کرانے اور ٹرائل کرانےکی ہدایت کرتے ہوئے تفتیش مکمل کرنے کے لیے پولیس کو مزید دس دن کی مہلت دے دی۔