ایک اچھے مجسمہ ساز کا کمال یہ ہے کہ وہ ایساشاہکار بنائے کہ گمان ہوکہ مجسمہ ابھی بول اٹھے گا ۔ پتھر،گیلی مٹی اور معمولی اوزاروں سےانسان،جانوراورکرداروں کو مجسمےکی صورت میں ڈھالنے والے ٹنڈوالہ یار کےفقیرا میگھواڑ کو بھی یہ غیر معمولی ہنر مندی حاصل ہے ۔
سقراط نے کہا تھا “ہر پتھر میں ایک تصویر ہوتی ہے”، پتھرتراش کرمجسمہ بنانا ایک مشکل فن ہے، بت تراشی ،یا مجسمہ سازی کسی کی میراث نہیں،یہ محنت اور پیدائشی رجحان کا فن ہے۔ٹنڈوالہ یارسے متصل ابراہیم کالونی کے فقیرا میگھواڑمجسمہ سازی کے ذریعے اپنی صلاحیتوں کااظہار کررہے ہیں ۔ فقیرا میگھواڑ نے مجسمہ سازی کسی انسٹیٹیوٹ یا ادارے سے نہیں سیکھا بلکہ انہوں نے اپنے دادا اور والد سے تربیت حاصل کی اور پھر 1990 سے ذاتی طور پر کام کا آغاز کیا ۔سولہ سال میں فقیرا نے مجموعی طور پر تین سو پندرہ چھوٹے بڑے مجسمے بنائے جو چھ انچ سے،پندرہ فٹ تک کے تھے ۔ ان کے بنائے ہوئے فن پارے سندھ ہی نہیں بلکہ بیرون ملک بھی نمائش میں پیش کئے گئے۔فقیراکے پاس آرٹ، فنون لطیفہ، تعمیرات، مجسمہ سازی، یا ڈرائنگ کی کوئی ڈگری نہیں،لیکن ان کے لئے یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ وہ مٹی میں ہاتھ ڈالیں تو ہم کلام ہوتے مجسمے جنم لیتے ہیں ۔انسان،جانوریاکوئی کردار ۔۔۔ فقیرا میگھواڑ ،چکنی گیلی مٹی اور مقامی طور پر بنائے گئے معمولی اوزاروں سےان کو نئی صورت دے کر قابل دید بنا دیتے ہیں۔