فاسٹ بولرز’ ہنٹنگ پیئر ‘کہلاتے ہیں یعنی شکاریوں کی ایسی جوڑی جو اپنے شکار کو بچ کر نکلنے نہ دے۔۔ اور کرکٹ کی دنیا میں تقریباً ہر بڑا فاسٹ بولراپنے پیئر کے ساتھ مشہور ہوا ۔
پاکستان کرکٹ پر ایک نظر ڈالیں تو معلوم ہو گا کہ کرکٹ کے ابتدائی دور میں فضل محمود اور خان محمد کی جوڑی مشہور ہوئی جس نے پاکستان کی فتوحات میں اہم کردار ادا کیا ۔
پھر عمران خان کی جوڑی سرفراز نواز کے ساتھ رہی اور اس جوڑی نے بھی مخالف ٹیموں کے چھکے چھڑا دئیے ۔ اس کے بعد وسیم اکرم اور وقار یونس کی جوڑی سامنے آئی اور ان دونوں کی ریورس سوئنگ سے ہر بلے باز پریشان رہا ۔
انہوں نے پاکستان کو یادگار فتوحات سے ہمکنار کیا ۔ انہی دونوں کی بے مثال کارکردگی نے پاکستان کو ورلڈ چیمپئن بنا دیا ۔
محمد عامر جب پاکستان ٹیم میں شامل ہوئے تو وہ بڑے کامیاب بولر مانے گئے ۔ عامر پاکستان انڈر19 ٹیم سے قومی ٹیم میں آئے تھے اور اس دور کے بولرز میں ان کے ساتھ کوئی ایسا بولر ہونا چاہیے تھا جو ان کا بہترین پارٹنر ثابت ہو ۔ اسی جستجو میں ،میں نے اس دور کے سلیکٹرز ہارون رشید اور اقبال قاسم سے پوچھا ۔
انہوں نے بتایا کہ’’ عامر کے ساتھ انہوں نے جنید خان کو انڈر 19 سے سلیکٹ کیا تھا اور بورڈ کو خط لکھا تھا کہ یہ دونوں بولرز آگے چل کر پاکستان کے لئے فتح گر ثابت ہوں گے اور انہیں کرکٹ اکیڈمی میں بلا کران کی تربیت کی جائے ۔ ‘‘
انہوں نےیہ بھی بتایا ’’ ان دونوں کے ٹیلنٹ کو پالش کرنے کی ضرورت تھی جس کے بعد یہ جوڑی پاکستان کرکٹ ٹیم کےلئے اثاثہ ثابت ہوگی ۔‘’‘
2010 انگلینڈ کے دورے میں جب محمد عامر نام نہاد میچ فکسنگ اسکینڈل میں پھنس گئے اور ان پر پابندی لگی تو مجھے فکر ہوئی کہ پاکستان انڈر 19 کا دوسرا فاسٹ بولر یعنی عامر کا پارٹنر کہا ں گیا؟؟ یہ سوال میں نے سابق سلیکٹر اقبال قاسم سے پوچھا۔ انہوں نے مجھے صرف یہ بتایا کہ اس لڑکے کا نام جنید تھا اور اب غالبا ً وہ ایبٹ آباد کی ٹیم سے کھیلتا ہے
اقبال قاسم سے حاصل معلومات کی بنیاد پر جیونیوز کی اسپورٹس ڈیسک نے عامر کے پارٹنر کی تلاش شروع کردی ۔ بورڈ سے رابطہ کیا تو یہ جان کر حیرت ہوئی کہ بورڈ کے حکام کو یہ یاد نہیں تھا کہ انڈر 19 میں کھیلنے والےکس کھلاڑی کو سلیکٹرز نے تربیت دینے کی سفارش کی تھی ۔ہم نے ایبٹ آباد میں جیو نیوز کے نمائندے ابرار رشید سے جنید خان کے بارے میں معلوم کرنے کو کہا ۔ ابرار رشید نے پورے ایبٹ آباد میں انہیں تلاش کیا لیکن وہ نہ مل سکے کیوں کہ جنید خان ایبٹ آباد سے کھیلے ضرور لیکن وہ اس شہر کے رہنے والے نہیں تھے۔
لیکن میں نے ہمت نہیں ہاری اور جنید کو تلاش کرتا رہا ۔ ان دنوں پی سی بی کے چیئرمین اعجاز بٹ تھے۔ ان سے ایک ملاقات میں جنید خان کا تذکرہ کیا اور درخواست کی کہ عامر کا انڈر 19 ورلڈکپ میں جو بولنگ پارٹنر تھا اس کا پتہ کریں ۔ میں نے اعجاز بٹ صاحب کو بتایا کہ سلیکٹرز نے ان کا نام بورڈ کو بھیجا تھا لیکن پی سی بی نے صرف محمد عامر کو بلایا اور جنید خان کو نظر انداز کر دیا ۔ اس کے بارے میں کچھ پتہ نہیں چلتا کہ وہ کہاں گیا۔
2010 میں پاکستان کرکٹ ٹیم کو عامر کے متبادل بولر کی ضرورت تھی۔ اعجاز بٹ صاحب نے میری درخواست پر توجہ دی اور ریکارڈ منگوا کے جنید خان کا پتہ نکال لیا ۔ جنید ایبٹ آباد کے نہیں بلکہ صوابی کے رہنے والےتھے۔ اعجاز بٹ صاحب نے جنید کو لاہور بلوا کے ان کی بولنگ دیکھی اور انہیں مزید آزمانے کےلئے اے ٹیم کے ساتھ سری لنکا بھیج دیا ۔
سری لنکا میں جنید خان کی کارکردگی میری توقع کے مطابق بہت بہتر رہی ۔ ان کی پرفارمنس دیکھتے ہوئے انہیں ورلڈ کپ 2011 کے لیے پاکستان اسکواڈ میں شامل کرلیا گیا لیکن اس وقت کے کوچ وقار یونس نےجنید خان کو چانس نہیں دیا ۔ اس ورلڈ کپ میں پاکستان کی پرفارمنس سب کے سامنے ہے ۔
اعجاز بٹ صاحب نے مجھے بتایا کہ جیونے صحیح نشاندہی کی تھی لیکن اس بے چارے کو ورلڈ کپ میں چانس ہی نہیں دیا گیا ۔ جنید نے بھی ہمت نہیں ہاری اور اپنی صلاحیتوں میں اضافہ کرتا گیا اور اپنی زبردست کارکردگی کی بنیاد پر جنید خان پاکستان کے فاسٹ بولرز کی اولین صف میں آگئے۔۔
مگر پھر 2015 کے بعد جنید خان کو قومی ٹیم میں جگہ نہیں ملی اور وہ انگلینڈ کاؤنٹی کرکٹ کھیلنے چلے گئے جس کے بعد انہوں نے بنگلہ دیش میں ہونے والے ٹی ٹوئنٹی ٹورنامنٹ میں شرکت کی اور بہترین بولنگ پرفارمنس دی لیکن پاکستانی سلیکٹرز ان کو جگہ دینے کو تیار نہ ہوئے ۔
اور جب پاکستان کرکٹ ٹیم میں شامل بالرز فیل ہونے لگے اور ہماری قومی ٹیم پے درپے شکستوں کے سیلاب میں ڈوبنے لگی تو اس وقت سلیکٹرز کو جنید خان یاد آئے اور یوں میلبون کے میچ میں پاکستان انڈر 19 کا ’ہنٹنگ پیئر مکمل ہوا۔ نتیجہ سب کے سامنے ہے، پاکستان کرکٹ ٹیم میلبورن میں فتح ہوئی اور اس نے 12 سال بعد آسٹریلیا کو آسٹریلیا میں شکست دی۔
اور اس طرح عامر اور جنید کی جوڑی کی تکمیل کے ساتھ ہی جیوکی مہم بھی مکمل ہوگئی جس کے لئے ہم جناب اعجاز بٹ کے بھی شکر گزار ہیں جن کی خصوصی دلچسپی نے جنید خان کو کرکٹ کے قومی دھارے میں شامل کرایا ۔