بلاول کا شو کامیاب رہا۔کئی سال بعد پیپلزپارٹی پنجاب میں ایک عوامی شو کرنے میں کامیاب ہوئی ہے۔ اس کا کریڈٹ بہر حال پیپلزپارٹی کی پنجاب کی نئی قیادت اور بلاول کو ہی جاتا ہے۔ لیکن پھر بھی یہ بات اپنی جگہ حقیقت ہے کہ یہ کوئی بہت بڑا شو نہیں تھا۔ اس شو سے یہ نہیں کہا جا سکتاکہ پیپلزپارٹی کی پنجاب میںبحالی کا عمل شروع ہو گیا ہے۔ عوام کی تعداد جہاں معمولی نہیں تھی وہاں غیر معمولی بھی نہیں تھی۔ یہ ایک ایسا شو تھا جو بہت سی سیاسی جماعتیں کرنے کی اہلیت رکھتی ہیں۔اتنے لوگ جمع کرنا کوئی بڑا معرکہ نہیں لیکن پیپلزپارٹی کی صورتحال کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ بڑی بات ہے۔ ایک تبصرہ یہ بھی ہے کہ پیپلزپارٹی پنجاب کے مردہ میں سانس چلنے کے آثار نظر آئے ہیں لیکن مردہ ابھی اٹھ کر نہیں بیٹھا۔
یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ کیا بلاول پیپلزپارٹی کی پنجاب میں بحالی کا ٹاسک پورا بھی کر سکتے ہیں کہ نہیں۔ لیکن ابھی تک تو بلاول کو وہ فری ہینڈ بھی نہیں ملا جو اس ٹاسک کو پورا کرنے کی کوشش کے لیے بنیادی ضرورت ہے۔ خبر تو یہ بھی ہے کہ سابق صدر آصف زرداری نے اپنی پارٹی کے سنیئر رنماؤں پر واضح کر دیا ہے کہ اگلے انتخابات میں پیپلزپارٹی کی طرف سے وزیر اعظم کے امیدوار وہ خود ہیں۔ اس لیے وزیر اعظم بلاول کے نعروں سے اجتناب کیا جائے۔ اسی لیے آصف زرداری نے بلاول کے ساتھ پارلیمنٹ جانے کا اعلان کیا ہے کیونکہ وہ ابھی بلاول کو کھلا میدان نہیں دینا چاہتے۔ اس لیے یہ کہنے میں کوئی مضا ئقہ نہیں کہ فی الوقت بلاول کی راہ کی بڑی رکاوٹ آصف زرداری ہیں۔
اس لیے بلاول سے بڑی امیدیں لگانا غلط ہو گا۔ آصف زرداری یہ جانتے ہیں کہ ایک میان میں دو تلواریں نہیں رہ سکتیں۔ اسی لیے وہ میان اپنے پاس رکھنے پر بضد ہیں۔اسی لیے انھوں نے بلاول کو فیصل آباد ایک معمولی سیاسی شو کرنے کے لیے بھیج دیا جب کہ امریکا میں خاص ملاقاتیں کرنے خود چلے گئے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ آصف زرداری امریکی حکام کو بھی یہی بتانے گئے ہیں کہ پیپلز پارٹی طرف سے وزارت عظمیٰ کے امیدواروہ خود ہیں۔ اور انھیں سنجیدگی سے لیا جائے۔ ایک طرف آصف زرداری امریکی حکام کا اعتماد جیتنے کی کوشش کر رہے ہیں اور دوسری طرف سی پیک کا کریڈٹ بھی لینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں وہ چین کو بھی یقین دلا رہے ہیں کہ سی پیک کو ان کے آنے سے کوئی خطرہ نہیں ہو گا۔
محترمہ بے نظیر بھٹو نے عوام میں اپنی قائدانہ صلاحیتیں اس لیے بلا شرکت غیرے منوالی تھیں کہ ان کے والد کو عدلیہ نے پھانسی تو دے دی تھی لیکن عوام کی عدالت ان کے والد کوبے قصور سمجھتی تھی۔جب کہ بلاول کے ساتھ صورتحال مختلف ہے بلاول کے والد کو عدلیہ نے تو بے قصور قرار دے دیا ہے لیکن عوام کی عدالت انھیں بے قصور ماننے کے لیے تیار نہیں۔ بے نظیر بھٹو کی قیادت کو پارٹی کے اندر سے کسی بھی قسم کا کوئی چیلنج نہیں درپیش تھا۔ جب کہ بلاول کی قیادت کے لیے سب سے بڑا چیلنج خود ان کے والد آصف زرداری ہیں۔ جبتک آصف زرداری میدان سیاست کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہو نگے بلاول کی قیادت اسپیڈ بریکرز کا شکار رہے گی۔
سونے پر سہاگہ حکمران جماعت بھی یہ نہیں چاہتی کہ پیپلزپارٹی کی قیادت بلاول کے پاس رہے۔ مسلم لیگ (ن) بار بار آصف زرداری سے بالواسطہ درخواست کر رہی ہے کہ وہ پیپلزپارٹی کی قیادت اپنے پاس رکھیں۔ مسلم لیگ (ن) سابق صدر آصف زرداری کو یہ سمجھا رہی ہے کہ وہ سندھ پر اپنی گرفت مضبوط رکھیں۔ اس ضمن میں حکمران جماعت نے ان کو فری ہینڈ دے رکھا ہے۔ اور یہ جاری رہے گا۔ جب کہ پنجاب میں پیپلزپارٹی کی بحالی کی کوشش کی جائے۔ سوال یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) کو پیپلزپارٹی کی پنجاب میں بحا لی کی کوشش سے کیا فائدہ ہے۔
اس ضمن میں مسلم لیگ (ن) کے تھنک ٹینکس کا کہنا ہے کہ اگربحالی کی نیم مردہ کوششوں سے پیپلزپارٹی پنجاب میں آٹھ سے دس ہزار ووٹ فی حلقہ لینے کی پوزیشن میں آجاتی ہے تو اس کا مسلم لیگ (ن) کو براہ راست فائدہ ہو گا۔ یہ ایک دلچسپ سیاسی فلسفہ ہے کیونکہ مسلم لیگ (ن) کے تھنک ٹینکس کے مطابق عمران خان پیپلز پارٹی کے ووٹر اور سپورٹر کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ اور اگر یہ ووٹر اور سپورٹر واپس پیپلزپارٹی کی طرف جاتا ہے تو نقصان عمران کو ہی ہو گا۔ اور مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصا ف کے درمیان جو مقابلہ بہت کلوز ہو گیا ہے۔ اس میں بڑا فرق آجائے گا۔ ن لیگ کی لیڈ بڑھ جائے گا۔اس لیے پیپلزپارٹی کو پنجاب میں بحالی کا عمل جاری رکھنا چاہیے۔لیکن پیپلز پارٹی کا خیال ہے کہ شاید پنجاب سے چند گنتی کی سیٹیں مل جائیں۔ اس لیے پیپلزپارٹی چند سیٹوں کی ہی کوشش کر رہی ہے۔
یہ سوال اپنی جگہ ہے کہ آصف زرداری وزیر اعظم کے سنجیدہ امیدوار کیسے ہیں۔ اس ضمن میں تھیوری یہ ہے کہ اگر اگلے انتخابات میں صورتحال ایسی ہو گئی کہ کوئی بھی ایک جماعت حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہ ہوئی اور دو جماعتوں کو مل کر حکومت بنانی پڑی تو گیم آصف زرداری کے ہاتھ میں ہو گی۔ کیونکہ چھوٹی جماعتیں ابھی بھی سینیٹ میں ان کے ساتھ ہیں۔ اور پھر مسلم لیگ (ن) بھی ایسی کسی صورتحال میں عمران خان کا راستہ روکنے کے لیے آصف زرداری کو راستہ دے گی۔ کیونکہ بلاول کی چھوٹی جماعتوں میں بھی مقبو لیت کم ہے اور مسلم لیگ (ن) بھی بلاول کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں، اس لیے آصف زرداری ایک لٹکانا پارلیمنٹ کے نتیجہ میں وزارت عظمیٰ کے سنجیدہ امیدوار ہیں۔ اسی لیے بلاول کا پتہ کاٹ دیا گیا ہے۔
کیونکہ آصف زرداری یہ چانس مس نہیں کرنا چاہتے۔ زرداری کا موقف ہے کہ بلاول کے لیے ابھی کئی مواقع ہیں۔ لیکن ان کے لیے یہ آخری موقع ہو سکتا ہے۔ پھر وہ ایک ممتاز ریکارڈ بنا کر بھی امر ہو جائیں گے کہ وہ صدر بھی رہے اور وزیر اعظم بھی رہے۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ اس کے بعد وہ ہنسی خوشی ریٹائر ہو جائیں گے۔ خبر تو یہ بھی ہے کہ انھوں نے پیپلزپارٹی سندھ کو قائل کر لیا ہے اور پنجاب کے پاس کوئی ا ٓپشن ہی نہیں تھا۔
کالم کے آخر میں آئی جی پنجاب کے لیے سپیرئر ایگزیکٹوا لائنس کا بھی ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ پنجاب کے آئی جی مشتاق سکھیرا پر اس حوالے سے ایسے تنقید کی جا رہی ہے جیسے یہ الاؤنس ان کی ذات کے لیے ہے۔ حالانکہ ان کی نوکری تو دو ماہ کی رہ گئی ہے۔ اب تو وہ اپنی ریٹائرمنٹ کی تیاری کر رہے ہیں۔ مجھے نہیں لگتا کہ وہ جاتے ہوئے کسی ایسے فائدے کے لیے کوشاں ہونگے۔ ان پر تین خود کش حملہ ہو چکے ہیں لیکن وہ بھاگے نہیں۔ پاکستان کے دو بڑے صوبوں کے آئی جی رہے ہیں۔ لیکن کرپشن کا کوئی داغ نہیں۔ جس بلٹ پروف گاڑی کا ابھی شور ہے وہ یہیں رہ جائے گی، یقین کیجیے وہ افتخار چوہدری کی طرح ساتھ نہیں لے جائیں گے۔