امریکا کے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ روس اور چین کے ساتھ مل کر کام کرنے کے خواہش مند ہیں۔ ٹرمپ نے وال اسٹریٹ جرنل سے بات کرتے ہوئے کہا کہ روس پر پابندیاں قائم رہیں گی لیکن پھر انھیں اٹھایا جا سکتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ انھیں امید ہے کہ روسی صدر ولادی میر پیوٹن سے ان کی ملاقات طے کی جائے گی۔ انھوں نے ون چائنا پالیسی کے متعلق کہا کہ اس بارے میں بات چیت ہو سکتی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ نئے امریکی صدر کا اپنی ہی خفیہ ایجنسی سی آئی اے سے جھگڑا حلف اٹھانے سے پہلے شروع ہو گیا۔ یہ عجیب منظر ہو گا کہ پوٹن اور ٹرمپ ملاقات ایسے ہو رہی ہو گی جیسے کہ دو دوست ملتے ہیں اور امریکی اسٹیبلشمنٹ اس حوالے سے تحفظات کا شکار ہو گی۔ ایک طرف صدر اوباما نے 35 روسی سفارت کاروں کو امریکا کے اندرونی معاملات میں مداخلت کے الزام میں ملک چھوڑنے کے احکامات جاری کیے تو دوسری طرف نومنتخب صدر کے قومی سلامتی کے مشیر اس حوالے سے روسی سفیر سے اسی دن ٹیلیفونک رابطہ کر رہے ہیں۔
نومنتخب امریکی صدر سے سبھی پریشان ہیں چاہے وہ اپنے ہوں یا پرائے۔ ایران امریکا جوہری ڈیل کے حوالے سے ٹرمپ اپنی انتخابی مہم میں پہلے ہی کہہ چکے ہیں وہ برسراقتدار آ کر اس ڈیل کو مسترد کر دیں گے۔ یہی اسرائیل بھی چاہتا ہے۔ ٹرمپ کا امریکی صدر بننا اسرائیل کی فتح ہے۔ کیونکہ ٹرمپ مشرق وسطیٰ کے ہر معاملے کو اسرائیلی مفادات کی عینک لگا کر دیکھتے ہیں۔ امریکا ایران جوہری ڈیل کا اسرائیل سخت مخالف ہے۔ یہاں تک کہ اس ڈیل کی منظوری کو روکنے کے لیے اسرائیلی وزیراعظم واشنگٹن گئے لیکن ناکام رہے۔
سی آئی اے کے سربراہ کہہ چکے ہیں کہ اس ڈیل کا خاتمہ تباہ کن ہو گا۔ ایران امریکا جوہری ڈیل اچانک نہیں ہوئی۔ اس کے بارے میں مذاکرات پس پردہ دس بارہ سال چلتے رہے۔ پہلی مرتبہ اس ڈیل کے معاملات 2014ء کے آخر میں منظرعام پر آئے۔ یہ ڈیل اس قدر خفیہ تھی کہ امریکا نے اس سے مشرق وسطیٰ میں اپنے اتحادیوںکو بھی بے خبر رکھا۔ جیسے ہی یہ ڈیل منظرعام پر آئی اس کی مخالفت سب سے زیادہ مشرق وسطیٰ کے امریکی اتحادیوں نے کی۔ کیونکہ وہ تو توقع لگائے بیٹھے تھے کہ امریکا اس بہانے ایران پر حملہ کر کے وہاں کی حکومت کا خاتمہ کر دے گا۔
ایران پر حملہ اوباما حکومت کے آپشن میں شامل تھا لیکن جب امریکی خفیہ ایجنسیوں نے رپورٹ دی کہ اگر یہ راستہ اختیار کیا گیا تو ایسے نتائج برآمد ہوں گے جو اس خطے سے امریکی مفادات کا خاتمہ کر دیں گے۔ اکیلے امریکا نے ایران سے ڈیل نہیں کی بلکہ اس میں عالمی طاقتیں بھی شامل تھیں جس میں روس‘ چین‘ برطانیہ‘ جرمنی‘ فرانس اور یورپی یونین بھی شامل تھی۔
یورپین یونین کی خارجہ امور کی سربراہ نے کہا ہے کہ ٹرمپ کی مخالفت کے باوجود یونین اس اہم معاہدے کا احترام کرے گی۔ کیونکہ یہ ہم سب کے لیے اہم معاہدہ ہے۔ انھوں نے کہا کہ معاہدے کو ایک سال ہو چکا ہے اور زیادہ تر مقاصد حاصل کیے جا چکے ہیں سب سے ہم بات یہ ہے کہ جہاں تک یورپی یونین کا تعلق ہے تو معاہدے سے تجارت اور اقتصادی تعلقات مضبوط ہوئے ہیں اور یہ بہت ہی اہم بات ہے۔ جب کہ برطانوی وزیر خارجہ بورس جانسن نے یورپی یونین کے وزرائے خارجہ کے اجلاس کے موقعہ پر ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔
ایرانی صدر حسن روحانی نے بھی نئے امریکی صدر کی جوہری ڈیل پر تنقید کے حوالے سے کہا ہے کہ اس ڈیل پر دوبارہ مذاکرات ہرگز نہیں ہوں گے چاہے ایران کو امریکا کی طرف سے نئی پابندیوں کا سامنا ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔ امریکا ایران جوہری معاہدے کا خاتمہ سی آئی اے کے سابق سربراہ جان برینن کے بقول بے وقوفی کی انتہا اور خطے کے لیے تباہ کن ہو گا جس سے اس خطے کے ممالک مزید عدم استحکام کا شکار ہوں گے۔صرف ایران پر ہی بس نہیں نئے امریکی صدر نے ناٹو کے حوالے سے یورپ کو کہا ہے کہ رکن ممالک اپنا فوجی خرچہ خود برداشت کریں۔ امریکا اتنا ہی کرے گا جتنا اس کا حصہ بنے گا۔
دوسری طرف فرانس کے وزیر خارجہ نے فلسطین کے دو ریاستی حل کے حوالے سے پیرس میں70ملکوں کے اجلاس کے موقعہ پر کہا ہے کہ اگر نئے امریکی صدر نے امریکی سفارت خانے کو تل ابیب سے مقبوضہ بیت المقدس منتقل کیا تو اس کے انتہائی سنگین نتائج مرتب ہوں گے۔ چین نے بھی نومنتخب صدر کو متنبہ کیا ہے کہ ون چائنا پالیسی پر کسی صورت سمجھوتہ نہیں ہو گا۔
نئے امریکی صدر کو یاد رکھنا چاہیے کہ دنیا میں صرف ایک چین ہے اور تائیوان اس کا اٹوٹ انگ ہے۔ ماحولیاتی تباہی سے زمین اور انسانی بقا کو جو خطرات لاحق ہیں ٹرمپ نے کہا ہے کہ یہ ایک ڈھکوسلا ہے اس کا حقیقت سے کوئی تعلق ہے۔ امریکا نے اس حوالے سے پیرس میں عالمی سربراہ کانفرنس میں جو وعدے کیے تھے ان وعدوں پر عملدرآمد کے لیے نئی امریکا انتظامیہ ذمے دار نہیں ہو گی۔
ٹرمپ امریکی تاریخ کے وہ صدر ہیں جن کے حلف اٹھانے سے پہلے ہی ان کے مخالفین نے، جو بہت بڑی تعداد میں ہیں، ہفتۂ احتجاج کا اعلان کیا ہے۔ جس میں خواتین کے حقوق کے لیے ملین مارچ ہو گا۔ چنانچہ ٹرمپ کے حلف اٹھاتے ہی پر تشدد مظاہرے شروع ہو گئے۔ جب ٹرمپ نے حلف اٹھایا اس وقت واشنگٹن میں دوپہر کے بارہ اور پاکستان میں رات کے دس بجے تھے۔ کیپٹل ہل میں تقریب میں نئے صدر سے پہلے نائب صدر مائیکل پنس نے حلف اٹھایا۔
امریکی وقت کے مطابق گیارہ بج کر 59 منٹ پر نومنتخب صدر کے حلف کا آغاز ہوا اور امریکی روایات کے مطابق دوپہر بارہ بجے نئے صدر کا حلف مکمل ہوا جس کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا کہ وہ دنیا سے اسلامی دہشتگردی کو مٹا دیں گے۔ انھوں نے کہا کہ امیگریشن، ٹیکس، تجارت اور خارجہ امور کو ایسا بنائیں گے جس سے امریکا کو فائدہ ہو۔ یہ وہی امور ہیں جس پر امریکا اور بیرون امریکا شدید خدشات اور تحفظات پائے جاتے ہیں۔
فروری سے مئی کے درمیان شام کے بشار الاسد کے مقدر کا فیصلہ ہو سکتا ہے۔