وزیر اعظم نواز شریف کے وکیل مخدوم علی خان نے شریف خاندان کی وراثتی جائیداد کی تقسیم کا ریکارڈ پیش کردیا جبکہ پراسیکیوٹر جنرل نیب نے عدالت کے حکم پر اسحاق ڈار کی معافی سے متعلق ریکارڈ عدالت میں پیش کیا۔
نیب ، اسٹیٹ بینک اور ایس ای سی پی نے شریف فیملی کے خلاف ریفرنسز میں اپیلیں کیوں دائر نہ کیں ۔ عدالت نے اٹارنی جنرل سے تحریری جواب طلب کرلیا۔ پاناما پیپرز لیکس کیس کی سماعت سپریم کورٹ کا پانچ رکنی بینچ جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں کر رہا ہے۔ وزیر خزانہ اسحق ڈار کے وکیل شاہد حامد نے سپریم کورٹ میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ضابطہ فوجداری کی دفعہ 26 کے تحت اسحاق ڈار کا دوبارہ ٹرائل نہیں ہوسکتا، اسحاق ڈار کابیان یہ کہہ کر لیا گیا کہ بیان نہ دیا تو اٹک قلعے سے نہیں جانے دیا جائے گا۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ اسحاق ڈار کے اعترافی بیان پر قانون کے علاوہ غور نہیں کریں گے۔ جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ اسحاق ڈار پر دہرے مقدمے کا اصول لاگو ہو گا۔انہوں نے اسحق ڈار کے وکیل شاہد حامد سے کہا کہ ایک شخص کا دو مرتبہ ٹرائل ہو سکتا ہےیا نہیں، اس نقطے پر دلائل دیں۔ شاہد حامد نے کہا کہ مشرف دور میں رانا ثناء اللہ کا سر اور بھنویں منڈوا دی گئیں تھیں، اسحاق ڈار کابیان یہ کہہ کر لیا گیا کہ بیان نہ دیا تو اٹک قلعے سے نہیں جانے دیا جائے گا۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ وعدہ معاف گواہ بننے کے بعد اسحاق ڈار کےخلاف نااہلیت کا حکم جاری نہیں کیا جا سکتا۔ شاہد حامد نے کہا کہ اسحاق ڈار کو نااہل قرار دینے کے خلاف اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست اور انٹراکورٹ اپیل خارج ہوئیں، نواز شریف اور دیگر کے خلاف ریفرنسز خارج کرنے کا فیصلہ رپورٹ کیا جا چکاہے۔ جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ فیصلے میں ریفرنس خارج اور تفتیش نہ کرنے کا کہا گیا۔ اس پر شاہد حامد نے کہا کہ دوبارہ تفتیش کرانے کے معاملے پر دورکنی بینچ میں اختلاف تھا، اس لیے فیصلہ ریفری جج نے سنایا۔ جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ منی لانڈرنگ کیس میں ریفری جج کو فیصلہ دینا تھا؟ شاہد حامد نے جواب میں کہا کہ ریفری جج نے نیب کی دوبارہ تحقیقات کی درخواست مسترد کی۔ جسٹس گلزار احمد نے استفسار کیا اس عدالتی فیصلہ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا؟ شاہد حامد کا کہنا تھا کہ اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج نہیں کیا گیا، عدالتی فیصلے کے خلاف اپیل کا وقت ختم ہو چکا، اس پر جسٹس آصف کھوسہ نے کہا آپ دلائل مکمل کر لیں پھر پراسیکیوٹر جنرل نیب سے پوچھیں گے۔