میئر کراچی وسیم اختر نے واٹر کمیشن کو شہر کی مشکلات سے آگاہ کردیا۔ کمیشن کے روبرو اپنے تحریری بیان میں میئر کراچی نے اختیارات کے بغیر کام کرنے میں دشواریوں کا رونا رویا ۔
انہوں نے واٹر بورڈ، سالڈ ویسٹ مینجمنٹ اور بلڈنگ کنڑول اتھارٹی کے محکموں کو بلدیہ عظمیٰ کراچی کے حوالے کیے جانے کا مطالبہ کیا ہے ، واٹر کمیشن نے شہر سے غیرقانونی ہائیڈرنٹس ختم کرنے اور ریتی بجری کی چوری سے متعلق رپورٹ کمیشن میں پیش کرنے کا حکم دیدیا ۔ سپریم کورٹ کے حکم پر قائم مسٹر جسٹس اقبال کلہوڑو پر مشتمل سندھ فراہمی و نکاسی آب کمیشن کی سماعت جمعرات کو بھی سندھ ہائی کورٹ میں ہوئی اس موقع پر مئیر کراچی وسیم اخترنے اپنا تحریری بیان اور سٹی کونسل سے منظور کی گئی قرارداد جمع کرائی۔ میئر کراچی نے اپنے بیان میں کہا کہ قرارداد کے متن کے تحت آئین کے آرٹیکل 140 کی رو سے مکمل اختیارات نہ دینا غیرمنصفانہ ہے،شہر میں کثیر المنزلہ عمارتیں بغیر کسی منصوبہ بندی کے تعمیر کی جارہی ہیں ۔جس سے فراہمی اور نکاسی آب کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے ۔آئین کے تحت اختیارات نہ ہونےسے شہر چلانا دشوار ہوچکا۔ وسیم اختر نے کہا کہ شہر میں واٹرمافیا بے حد مضبوط اور لوگ پانی سے محروم ہیں، یہاں سے پیسے کمائے گئے لیکن لگائے نہیں گئے۔ معروف صنعت کار زبیر موتی والا نے کمیشن کے روبرو اپنے بیان میں کہا کہ جو پانی ٹریٹمنٹ کرکے سمندر میں پھینکا جا رہا ہے وہ بھی معیار کے مطابق نہیں ہوتا ، صرف میونسپل ویسٹ علیحدہ کرنے سے مسئلہ حل نہیں ہوتا ۔سائٹ کی صنعت کو 45 ملین گیلن یومیہ پانی کی ضرورت ہے،لیکن واٹر بورڈ ہمیں 12 ملین گیلن یومیہ پانی دے رہا ہے ،ہم 35 ملین گیلن سیوریج کے پانی کو ٹریٹ کرکے دوبارہ استعمال کرسکتے ہیں۔ کمیشن نے اس معاملے پر ڈپٹی کمشنر ایسٹ کو طلب کرلیا ہے اور کہا ہے کہ وہ ٹریٹمنٹ پلانٹ کے لئے دی جانے والی مزید 40 ایکڑ زمین کے حوالے سے رپورٹ پیش کریں ۔کمیشن نے ڈی آئی جی ویسٹ کو حکم دیاکہ غیر قانونی ہائیڈرنٹس ختم کریں۔ انہوں نے ڈی آئی جی ایسٹ کو ریتی بجری چوری کے حوالے سے اپنی رپورٹ جمع کرانے کا حکم دیا ہے اور کہا ہے کہ اگر واٹر بورڈ عملہ اس کام میں ملوث ہو تو اسکے خلاف بھی مقدمہ درج کیا جائے۔ کمیشن کی مزید کارروائی کل تک کے لیے ملتوی کردی گئی۔