وہ زمانے اب یاد فراموشی کے طاق پر رکھ دیے گئے ہیں جب ساری دنیا کے باشعور اور باضمیر شہری نسل، عقیدے ، رنگ و زبان کی تفریق کے بغیر فلسطینیوں کے ساتھ تھے۔ فلسطین کے حق میں آواز بلند کرنے والوں میں وہاں رہنے والے عیسائی اور معدودے چند یہودی بھی تھے، حنان اشروی، جارج حباش اور کئی دوسرے اس صف میں شامل تھے۔
پھر وہ دن آئے جب فلسطین کی آزادی، جمہوری جدوجہد کے بجائے اسلامی تحریک سے جڑ گئی۔ حماس نے اس جدوجہد کی باگ ڈور سنبھال لی، ایران کی حمایت نے اس تحریک کا رنگ بدل دیا اور آزادی اور جمہوری حقوق کی یہ روشن خیال اور دنیا بھر میں اپنے ہمدرد رکھنے والی تحریک، مذہبی رنگ اختیار کرگئی۔ خود بہت سے فلسطینی اس روش سے اتفاق نہیں رکھتے تھے لیکن ان کی مجبوری یہ تھی کہ وہ جدید اسلحے سے مسلح اور اپنے ہی متشدد بھائیوں کے حصار میں آگئے تھے۔ وہ انھیں دلیل اور منطق سے یہ نہیں سمجھا سکتے تھے کہ ان کی غیر مسلح اور پرامن جدوجہد نے سالہا سال کے دوران دنیا کے مختلف حصوں میں اپنی تحریک جو ہمدرد بنائے ہیں، وہ ان کی طرف سے منہ موڑ لیں گے اور ان کی تمام جدوجہد اور قربانیاں رائیگاں چلی جائیں گی، ان کا شمار بھی دنیا کے عام دہشت گردوں میں ہوگا جب کہ وہ اپنے حق کی جنگ لڑرہے ہیں، وہ بھی صرف پتھروں سے اور غلیلوں سے۔
عدم تشدد کو ماننے والے فلسطینوںنے پرتشدد اسرائیلوں کو بھی اس بات پر قائل کیا کہ وہ غلطی پر ہیں۔ اس بارے میں ایک اسرائیلی فوجی کی مثال پیش کی جاسکتی ہے جو مغربی کنارے پر کئی مہینے لڑتا رہا تھا۔ اسی لڑائی کے دوران وہ زخمی ہوا اور ریڈ کراس کے کیمپ میں لایا گیا۔ اس نے اپنا علاج کرنے والے اسرائیلی ڈاکٹر سے اعتراف کیا کہ اس لڑائی کے دوران اس نے کئی فلسطینی ہلاک کیے ہیں جس پر وہ بہت نادم ہے اور اس کی آخری خواہش ہے کہ اس کا دل کسی ایسے فلسطینی کو لگادیا جائے جو اسرائیلی حملے کے نتیجے میں نیم جان ہو اور اس کا دل کسی فلسطینی کی جان بچا سکتا ہو۔
کینیڈا سے اسرائیل جانے والے ڈاکٹر خالد سہیل نے اس یہودی سپاہی کے دل کا قصہ لکھا ہے کہ ’’ریڈ کراس والوں کو مغربی کنارے کا ایک فلسطینی ملا جو گھر سے بچوں کے لیے دودھ لینے نکلا تھا اور اسرائیلی فوجیوں کی گولی کی نذر ہوگیا۔ اس کے نیم مردہ بدن کو اسپتال لایا گیا، اس کی زندگی کو صرف نئے دل سے بچایا جاسکتا تھا۔ چنانچہ ریڈ کراس کے ڈاکٹر نے اسی اسرائیلی فوجی کا دل اس فلسطینی شہری کے سینے میں لگادیا اور وہ پھر سے جی اٹھا‘‘۔
ڈاکٹر سہیل کو یہ قصہ سنانے والی لڑکی نے انھیں ایک نظم دکھائی اور کہا کہ یہ نظم اسی اسرائیلی فوجی کی ہے جو اس نے مرنے سے دو دن پہلے لکھی تھی۔ پھر اس نے اس نظم کا ترجمہ سنایا جو کچھ یوں تھا:
میرا دل
تحفہ ہے
ایک فلسطینی شہری کے نام
جو اپنے حق کی حفاظت کرتے ہوئے زخمی ہوا
میرا دل
خوں بہا ہے
ان لاکھوں یہودیوں کا جو جرمنوں کے ہاتھ مارے گئے
اور ان
ہزاروں معصوم فلسطینیوں کا
جو یہودیوں کے ہاتھوں قتل کردیے گئے
میرا دل
ایک آرزو ہے
اس دن کی جب
ساری دنیا اسرائیل کو
اور
اور اسرائیل فلسطین کو
دل سے قبول کرلے گا
میرا دل
امید ہے
اس شہر کی
جہاں اسرائیلی اور فلسطینی
ایک باپ کی اولاد
ایک دوسرے کے خون کے پیاسے بن کر نہیں
دوست اور ہمسائے بن کر رہیں گے۔
ایک طرف اس نوعیت کی بہت سی تحریریں ہیں۔ نثر میں اور نظم کی صورت بھی۔ بہت سے لوگ خواہ وہ اسرائیل سے تعلق رکھتے ہوں یا فلسطین سے، وہ ان باتوں کو جذباتی قرار دیتے ہیں۔ ان کے خیال میں یہ ’بے وقوف‘ لوگ ہیں جو اس طرح کی تحریروں سے دوسروں کو بھی ’بے وقوف‘ بناتے ہیں۔ ورنہ درحقیقت اسرائیل میں کوئی بھی ایسا شہری نہیں جو اپنی حکومت کے ظلم اور جنگی جنون کے خلاف ہو۔ ایک انتہا یہ ہے اور دوسری انتہا وہ ہے جہاں اسرائیل کی نئی نسل اپنی تشدد پسند حکومت کے خلاف ہے۔ یہ نئی نسل سمجھتی ہے کہ ظلم صرف مظلوم کے لیے ہی نہیں، ظالم کے حق میں بھی قہر اور زہر ثابت ہوتا ہے۔ یہ نئی نسل امن چاہتی ہے اور فلسطینیوں کو ان کا حق دینا چاہتی ہے۔ وہ جانتی ہے کہ مظلوموں کو اگر ان کا حق مل گیا تو ان کے لیے بھی زندگی امن اور چین کا دوسرا نام ہوجائے گی۔
ہمارے یہاں لوگوں کی ایک بڑی تعداد ’جہاد‘ اور ’جدال و قتال‘ کو فلسطین یا ایسے ہی دوسرے سنگین مسائل کا حل سمجھتی ہے جب کہ دنیا کے دوسرے پیچیدہ معاملات پر نگاہ ڈالی جائے تو صرف پُر امن جدوجہد اور مکالمے ہی سے وہ مسائل حل ہوسکے ہیں۔ شمشیر اور تیر و تبر سے مسائل کو حل کرنے کا زمانہ گزر چکا۔ ہم اگر صرف اس بات پر نظر ڈالیں کہ غزہ کی طرف سے اسرائیل پر داغے جانے والے حالیہ سیکڑوں میزائلوں کا کیا اثر ہوا، تو ہمیں معلوم ہوگا کہ دیسی ساختہ یہ آتشیں اسلحہ ناقص تھا، اس نے شور تو بہت مچایا لیکن یہ اسرائیلیوں کو کوئی خاص نقصان پہنچانے میں ناکام رہا۔ ان میزائلوں کے داغے جانے سے یہ ضرور ہوا کہ بہت سے وہ لوگ جو فلسطینیوں کے ساتھ تھے، انھیں یہ حملہ ’دہشت گردی‘ محسوس ہوا اور ان کی ہمدردیاں اسرائیلیوں کے ساتھ ہوگئیں۔ کسی بین الاقوامی قضیے میں عالمی برادری کی ہمدردیوں سے محروم ہوجانا اور لوگوں کا ہر فلسطینی کو دہشت گرد سمجھ لینا، فلسطینوں کا بہت بھاری نقصان ہے۔
فلسطینی مظلوم ہیں اور ان کی پرامن جدوجہد ان کا بڑا ہتھیار ہے۔