counter easy hit

مدد ہمیشہ پلٹ کر آتی ہے

دنیا کا کوئی مذہب یا نظریہ ایسا نہیں جو ضرورت مندوں کی دامے درمے قدمے مدد سے روکتا ہو یا اس کی حوصلہ افزائی نہ کرتا ہو۔ اسلام میں اس جانب طرح طرح سے توجہ دلائی گئی ہے۔ بھلے وہ زکواۃ جیسا بنیادی رکن ہو،  صدقے، خیرات پر بار بار زور ہو یا ہمسائے کے حقوق اور ضروریات کو پیشِ نظر رکھنے کی تلقین ہو۔ دنیا میں دوسرے کی مدد اور خیال رکھنے کا کتنا رجحان ہے؟ اس بابت ٹھیک ٹھیک اعداد و شمار تو شائد کبھی بھی نہ سامنے آ سکیں کیونکہ مدد اعلانیہ بھی ہوتی ہے اور پوشیدہ بھی۔ البتہ پچھلے چھ برس سے شایع ہونے والی چیرٹی ایڈ فاؤنڈیشن کی عالمی انڈیکس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ اس دنیا میں تمام تر سفاکی کے باوجود انسانیت انفرادی و اجتماعی طور پر کس قدر زندہ ہے۔

چیرٹی ایڈ فاؤنڈیشن کی انڈیکس تین بنیادی سوالات کے گرد گھومتی ہے۔ کیا آپ نے سال بھر کے دوران کسی اجنبی کی مدد کی؟ کیا آپ نے کسی ضرورت مند کی مالی اعانت کی؟ کیا آپ نے کسی انفرادی و اجتماعی فلاحی مقصد کے لیے رضاکارانہ اپنا کچھ ذاتی وقت دان کیا؟ اس اعتبار سے سال دو ہزار پندرہ کی انڈیکس کے مطابق دو ارب بیس کروڑ انسانوں نے اپنا فلاحی فرض کسی اجنبی کی مدد کر کے ادا کیا (یہ مدد راستہ بتانے سے لے کر کھانا کھلانے تک کسی بھی شکل میں ہو سکتی ہے)۔ ایک ارب چالیس کروڑ انسانوں نے کسی نہ کسی فرد یا ادارے کی مالی مدد کی۔ ایک ارب انسانوں نے رضاکارانہ طور پر اپنا ذاتی وقت دان کیا۔ یعنی دنیا کی نو ارب آبادی میں سے آدھی آبادی نے کسی نہ کسی شکل میں دوسرے کی مدد کی۔

مدد کی ان تینوں صورتوں کو جمع کر کے سال دو ہزار سولہ کی جو انڈیکس مرتب ہوئی اس کے مطابق فلاحی امداد، ایثار، رضاکاری اور خیرات کی مد میں برما ایک سو چالیس ممالک کی فہرست میں اول نمبر پر رہا۔ حالانکہ برما کا شمار انتہائی غریب ممالک میں ہوتا ہے۔ اس کے بعد بالترتیب امریکا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، سری لنکا، کینیڈا، انڈونیشیا، برطانیہ، آئر لینڈ اور متحدہ عرب امارات آتے ہیں۔ تعجب  ہے کہ اس انڈیکس میں دنیا کی دوسری بڑی معیشت چین ایک سو چالیسویں جب کہ تیسری بڑی معیشت جاپان کے لوگ ایک سو چودھویں نمبر پر ہیں۔ یعنی ان دونوں ممالک میں سماجی اعتبار سے دوسرے کی مدد کا رجحان غیر متوقع طور پر کم پایا گیا۔ جب کہ بھوٹان جیسا غریب ملک اس انڈیکس میں اٹھارویں اور نیپال انتالیسویں نمبر پر ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ مدد و ایثار کا تعلق امارت یا غربت سے نہیں  دل سے ہے۔

افغانستان کا شمار اگرچہ دنیا کے دس غریب ترین ممالک میں ہوتا ہے مگر مدد و ایثار کی فہرست میں اس کا نمبر اٹھتہر ہے۔ جب کہ بھارت ایک ارب تیس کروڑ آبادی کا ملک، ایشیا کی تیسری اور دنیا کی دسویں بڑی معیشت ہے مگر مدد و ایثار کے انڈیکس میں اس کا نمبر اکیانوے ہے۔ پاکستان بھارت سے بھی ایک ہاتھ نیچے ہے حالانکہ آبادی کے اعتبار سے انڈونیشیا کے بعد دوسرا بڑا مسلمان ملک ہے۔ جب کہ انڈونیشیا مدد و ایثار کی عالمی انڈیکس میں برطانیہ، آئر لینڈ اور متحدہ عرب امارات سے بھی آگے یعنی ساتویں نمبر پر ہے۔

اقوامِ متحدہ کے ملینیم گول کے مطابق اگر اس دنیا سے لاچاری، بیماری اور غربت کا خاتمہ مقصود ہے تو ہر ملک کو اپنی قومی آمدنی کا کم از کم اعشاریہ سات فیصد فلاحی کاموں کے لیے دان کرنا چاہیے۔ اس کسوٹی پر اب تک صرف پانچ ممالک ہی پورے اتر سکے ہیں(لکسمبرگ، ہالینڈ، ڈنمارک، ناروے، سویڈن۔ جب کہ فن لینڈ اور برطانیہ اس ہدف کو تقریباً چھو رہے ہیں)۔ امریکی شہری اگرچہ سالانہ دو سو چالیس ارب ڈالر انسانی امداد کے لیے دان کرتے ہیں اور مدد و ایثار کی عالمی انڈیکس میں امریکا برما کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔ مگر قومی آمدنی کے تناسب سے دیکھا جائے تو امریکا محض صفر اعشاریہ اٹھارہ فیصد فلاحی امداد ہی بیرونی ممالک کو دیتا ہے۔

جو لوگ دوسروں کی مدد نہیں کرتے ایسا نہیں کہ وہ سنگ دل ہیں یا مدد کرنا نہیں چاہتے۔مگر ان میں سے بیشتر شائد اس خیال سے ہاتھ روک لیتے ہیں کہ کیا فائدہ خیرات یا عطیہ دینے کا۔ میرے ہزار پانچ سو سے غربت یا مصائب تو ختم نہیں ہوں گے۔ یہ کام تو ریاستوں کے کرنے کے ہیں۔ شائد ایسا نہیں ہے۔ کوئی بھی رقم چھوٹی بڑی نہیں ہوتی۔کھوٹا سکہ بھی کام میں آ جاتا ہے۔

مثلاً آپ کے ڈھائی ڈالر سے دو غریبوں کو وہ مچھر دانی میسر آ سکتی ہے جو انھیں ملیریا سے سال بھر بچا سکے۔ آپ کے پندرہ ڈالر سے کسی کو نگاہ کی اچھی سی عینک مل سکتی ہے۔ آپ کے بیس ڈالر میں تئیس انسانوں کو پینے کا صاف پانی سال بھر کے لیے دستیاب ہو سکتا ہے۔ تیس ڈالر میں ایک زچہ کو اسپتال اور پھر اسپتال سے گھر دواؤں سمیت لایا لے جایاجا سکتا ہے۔ ایسی بے شمار ضرورتیں ہیں جو آپ کی جانب سے اکٹھی ہونے والی معمولی رقم سے پوری ہو سکتی ہیں۔ بس آپ کو یہ دھیان دینا ہو گا کہ خیرات کے نام پر اندھا دھند لٹانے کے بجائے  جس فرد یا ادارے کو آپ دان کر رہے ہیں اس کے بارے میں آپ کو یقین ہو کہ یہ واقعی ضرورت مند ہے یا ایمانداری سے کسی اور کی ضرورت پوری کرنے کے قابل ہے۔

اگرچہ پاکستان مدد و ایثار کی عالمی انڈیکس میں بانوے نمبر پر ہے مگر اچھی خبر یہ ہے کہ پاکستان میں نیشنل یونیورسٹی آف سائنس و ٹیکنالوجی کے ایک تازہ سروے کے مطابق لوگوں میں پچھلے اٹھارہ برس کے دوران صدقات، عطیات و خیرات دینے کے رجحان میں تین گنا اضافہ ہوا ہے اور اس مد میں رقم انیس سو اٹھانوے میں دیے گئے ستر ارب روپے سے بڑھ کے گزشتہ برس  دو سو چالیس ارب روپے تک پہنچ چکی ہے۔ اس میں سے اڑسٹھ فیصد رقم ضرورت مندوں کو براہِ راست اور تیس فیصد رقم مدارس و مساجد کے ذریعے دی گئی۔

جن دیگر اداروں کو رقم دی گئی ان میں ایدھی فاؤنڈیشن، گردوں کی پیوند کاری کا ادارہ ایس آئی یو ٹی اور غریب طبقات کے در تک معیاری تعلیم پہنچانے کے لیے کوشاں سٹیزن فاؤنڈیشن جیسے متعدد ادارے شامل ہیں۔ اگر دان کرنے والے خواتین و حضرات ان جیسے اداروں کو مزید رقم دینے پر توجہ کریں تو اس رقم کا زیادہ مربوط اور بہتر استعمال ممکن ہے۔ براہ راست کسی فرد کو رقم دینے سے وقتی طور پر تو اس کا مسئلہ حل ہو سکتا ہے اور ہنگامی مدد کرنی بھی چاہئیے۔ مگر ایسے اداروں کو رقم دینے سے کہ جنھیں آپ کا اعتماد حاصل ہو آپ کی مدد یکجا ہو کر زیادہ موثر اور دیرپا نتائج پیدا کر سکتی ہے۔ اس طریقے سے یہ ادارے نہ صرف مزید مستحکم ہو سکتے ہیں بلکہ اپنی سرگرمیوں کو اور پھیلا سکتے ہیں۔

گزشتہ جولائی میں عبدالستار ایدھی کا انتقال ہوا۔ اس موقع پر جو قومی جذبات دیکھنے میں آئے ان سے اندازہ ہوا کہ اس ملک میں کام کرنے والوں کی کتنی قدر ہے۔ مگر ایدھی صاحب کی وفات کے بعد وقتی طور پر ایدھی فاؤنڈیشن کو ملنے والے عطیات میں شائد اس لیے کمی آئی کیونکہ چندے کو آمدنی خیال کرنے والی کچھ تنظیموں اور افراد نے ایدھی صاحب کی غیر موجودگی سے فائدہ اٹھا کے اپنا الو سیدھا کرنے کے لیے ایدھی فاؤنڈیشن کے خلاف ہر طرح کا پروپیگنڈہ شروع کر دیا۔ اگرچہ عطیات میں دس سے پندرہ فیصد کمی اب بھی ہے تاہم پہلے کی نسبت حالات قدرے بہتر ہیں۔

دنیا بھر میں بھاری منافع سمیٹنے والی مقامی اور کثیر القومی کمپنیوں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنے منافع کا کم ازکم ایک فیصد غربت، بیماری اور ماحولیاتی ابتری سے نبرد آزما اداروں، افراد اور ان کی جدو جہد پر صرف کریں۔ اس ذمے داری کو کاروباری دنیا میں کارپوریٹ ریسپانسبلٹی کہا جاتا ہے۔ اس کی سب سے روشن مثال بل اینڈ ملنڈا گیٹس فاؤنڈیشن ہے۔ اس کا امدادی فنڈ پینتالیس ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔ اس فنڈ میں بل گیٹس کے اٹھائیس ارب ڈالر اور ایک اور مشہور دانی وارن بوفٹ کے ساڑھے تین ارب ڈالر بھی شامل ہیں۔

یہ فاؤنڈیشن دنیا بھر میں بھوک، بیماری، جہالت اور ماحولیاتی ابتری کے خلاف جنگ میں مصروف اداروں کی مدد کر رہی ہے۔ پاکستان میں بھی ایک سے ایک کھرب پتی بین الاقوامی و مقامی کاروباری ادارے اور کمپنیاں موجود ہیں۔ اگر وہ اپنے سالانہ منافع کا ایک فیصد بھی انسانیت کے لیے وقف کر دیں تو کروڑوں کا بھلا ہو سکتا ہے اور وہ بھی ایک ایسے ملک میں جہاں کم از کم چالیس فیصد آبادی خطِ غربت کے بوجھ تلے دبی پڑی ہے۔ اگر یہ آبادی خطِ غربت سے اوپر آ جائے تو جو پیسہ ان پر آج لگایا جائے گا  کل وہ پھر ان لوگوں کی قوتِ خرید کی شکل میں لگانے والے کے پاس لوٹ کر آ جائے گا۔ اسے کہتے ہیں طویل المیعاد منافع بخش سرمایہ کاری۔۔۔

HELP, WILL, ONE, DAY, PAY, YOU, BACKبشکریہ، وسعت اللہ خان، ایکسپریس

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website