زندگی میں جب ایسا وقت آ جائے کہ دن اور رات کے فاصلے ایک دوسرے میں گم ہو جائیں اور سورج کا طلوع غروب بے معنی ہو جائے تو بات ذرا سوچ سمجھ کر کرنی چاہیے بلکہ سمجھ کر زیادہ اور سوچ کر کم کرنی چاہیے۔
ہمارے جیسے لوگ جو لکھنے پر مجبور ہیں اور جنھیں سورج کے طلوع و غروب کے ساتھ ہر روز کچھ نہ کچھ لکھنا پڑتا ہے اور دن رات کا حساب رکھنا ہوتا ہے وہ اگر طلوع و غروب کا دھیان نہ رکھیں تو ہر روز مار کھا جائیں اور قارئین کا مذاق بن جائیں۔ قارئین کی دنیا میں اعتماد اور اعتبار کا اٹھ جانا قلم کے ساتھ رشتے کو ختم کر دینا زیادہ مناسب ہو گا کیونکہ اس طرح کم از کم اخبار کے ایڈیٹر کو قارئین کی طعن و تشنیع سے بچانا ممکن ہو گا اور یہ ایک کارکن کے لیے لازم ہے۔ لکھنے والے کا پہلا کام اپنے اخبار کی عزت محفوظ رکھنا ہے لامحدود اور بھانت بھانت کے قارئین کرام کا اعتماد جب تک رہے گا اخبار زندہ رہے گا ورنہ کاغذ کے ٹکڑے کی کیا عزت ہے اصل عزت اور وقار کاغذ کے اس ٹکڑے کی تحریر کا ہے جو اس کے چہرے پر رقم کی جاتی ہے اور لوگ اسے دل کے ساتھ پڑھتے ہیں۔
لکھنے والے جیسے دل نکال کر کاغذ پر رکھ دیتے ہیں قارئین اسی محبت اور جذبے کے ساتھ کسی تحریر کو پڑھتے ہیں اور اس سے کوئی اثر لیتے ہیں۔ پبلک یعنی عوام کے لیے لکھنا ان لوگوں کے لیے جو لکھتے لکھاتے زندگی کا مشکل ترین کام ہے نہ جانے کتنے قارئین کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ہر قاری ماشاء اللہ اپنی ایک رائے رکھتا ہے آپ کے ساتھ اتفاق یا اختلاف اس کا حق ہے اور وہ اپنا یہ حق استعمال کرتا ہے اور کسی صورت بھی اس سے دستبردار ہونے پر تیار نہیں ہوتا۔ لکھنے والا اپنے کسی قاری کو قائل کرنے کی کوشش تو کر سکتا ہے لیکن کسی قاری کو اس کی رائے سے دستبردار ہونے کا نہیں کہہ سکتا۔ اس کوشش کا ردعمل بہت ہی سخت ہوتا ہے اور یہ بالکل درست ہوتا ہے کیونکہ ایک مقولہ ہے کہ ہر آدمی کی ایک رائے ہوتی ہے اور ہر رائے کا احترام کیا جاتا ہے۔ کسی لکھنے والے اور قاری کے درمیان یہی احترام کا رشتے ہے جو لکھنے والے اور اس کے قاری کو زندہ رکھتا ہے۔
یہ احترام دونوں کے درمیان ایک اعتبار کا نام ہے لکھنے والے کی تحریر اور خیالات پر اعتماد اور ان کا احترام ہے جو کسی قاری کو قائل کرتا ہے۔ بہرکیف خیالات ہر ایک کے اپنے اپنے اور مختلف معاملات پر موقف بھی اپنا اپنا لیکن کورے کاغذ پر تحریر قاری اور لکھنے والے کو آپس میں باندھ کر رکھتی ہے اور وہ دونوں اس رشتے سے منسلک رہتے ہیں۔ اختلاف اور اتفاق اپنی اپنی جگہ لیکن دونوں کے درمیان اس سے بہتر رابطے کی اور کوئی صورت نہیں ہوتی چنانچہ یہی وہ کاغذی رابطہ ہے جو کسی کو ایک دوسرے کے ساتھ منسلک رکھتا ہے۔
ہمارے جیسے لکھنے والے کی پوری زندگی کاغذ اور اس کی تحریر کے اسی رشتے میں بندھی ہوئی گزر گئی اور گزر رہی ہے۔ دنیا میں یہ ثابت ہو چکا ہے کہ انسانوں کے میل ملاپ کے لیے سب سے موثر طریقہ تحریر ہے اور دنیا کا ہر مذہب کسی نہ کسی تحریر کے ذریعے متعارف ہوا ہے اور ہر مکتب فکر کی ترویج کسی تحریر کے ذریعے ہوئی ہے اور یہ سلسلہ جاری ہے کیونکہ اس سے زیادہ بہتر اور موثر کوئی اور ذریعہ موجود نہیں ہے اور نہ ہی ایجاد کیا جا سکا ہے اس لیے اب تک اور شاید آیندہ بھی انسانوں کو اپنے رشتوں میں تحریر کی ضرورت رہے گی اور خصوصاً نظریاتی زندگی بسر کرنے والے تو تحریر کے بغیر زندہ ہی نہیں رہ سکتے۔
انسانی زندگی میں سب سے اہم انسانی میل جول اور باہمی رابطے ہیں اور ان رابطوں میں سب سے موثر اور کامیاب ذریعہ تحریر ہے اسی تحریر کے ذریعہ دنیا میں نظریات پھیلائے گئے ہیں اور ہم جو مسلمان ہیں اور قرآن و حدیث پر ایمان رکھتے ہیں وہ قرآن پاک جیسی کتاب پر یقین سے اپنی زندگی کا آغاز کرتے ہیں۔ احادیث کی چھ کتابیں ان کے خیالات کو تقویت دیتی ہیں اور ان کا ایمان تازہ رکھتی ہیں۔
غرض ہمارا مذہب اور دین تحریر کا محتاج ہے اور اللہ کے کلام سے لے کر اس کے رسول پاک کے ارشادات تک سب کچھ تحریر کی صورت میں موجود ہے۔ اس طرح مسلمانوں نے اپنا دین اور نظریہ باقاعدہ قلمبند کر لیا ہے اور اس میں ردوبدل کی گنجائش نہیں ہے۔ قرآن پاک کے بارے میں تو خود اللہ تبارک تعالیٰ نے اس کی حفاظت کا اعلان کیا ہے اس لیے مسلمانوں کے دینی نظریات ایک محفوظ تحریر ہیں اور مسلمان اپنے اس مربوط دین پر قائم رہتے ہیں اور اس کی تبلیغ کرتے ہیں۔
بشکریہ :عبدالقادر حسن ، ایکسپریس