لاہور: کرکٹ میں کرپشن کیخلاف جنگ کی جگہ آپس میں ہی پنجہ آزمائی شروع ہو گئی، اسپاٹ فکسنگ کیس پر پی سی بی اور ایف آئی اے آمنے سامنے ہو گئے۔
پی ایس ایل اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل پی سی بی کے گلے کی ہڈی بن گیا،کھلاڑیوں کے فونز کا ڈیٹا حاصل کرنے کیلیے فرانزک مدد لینے کی درخواست کے بعد ایف آئی اے نے معاملات اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے تحقیقات کا آغاز کردیا ہے، شرجیل خان، خالد لطیف، محمد عرفان اور شاہ زیب حسن کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالا جا چکا، چاروں سے لاہور میں ابتدائی تحقیقات بھی مکمل کی جا چکیں، ان کرکٹرز نے ایف آئی اے کے سامنے بھی اینٹی کرپشن یونٹ کو پیش کیا جانے والا موقف دہراتے ہوئے الزامات سے انکار کیا ہے۔ دوسری جانب چارج شیٹ کے مطابق کیس کی سماعت کیلیے شرجیل خان اور خالد لطیف کو جمعے کو پی سی بی کی جانب سے قائم کیے جانے والے ٹریبیونل کے سامنے بھی پیش ہونا ہے،وزارت داخلہ ذرائع کہتے ہیں پی سی بی تعاون نہیں کر رہا، کھلاڑیوں کے موبائل فونز اب تک نہیں دیے گئے۔ ادھر چیئرمین پی ایس ایل نجم سیٹھی نے ایک پروگرام میں ایف آئی اے کو تحقیقات سے روکنے کی بات کردی، انھوں نے کہا کہ وفاقی ادارے سے موبائل فون ڈیٹا کی تصدیق کو کہا تھا تحقیقات کا نہیں، انکوائری پی سی بی کو کرنے دیں یہ ہمارا کام ہے، ہم بعد میں سارا ڈیٹا ایف آئی اے کو دیں گے پھر وہ چاہیں تو سزا دیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ پی سی بی اور آئی سی سی قانون کے تحت اسپاٹ یا میچ فکسنگ کیخلاف کارروائی بورڈ کرتا ہے،اگر کوئی اور ادارہ انکوائری کرے تو پی سی بی کیلیے آئی سی سی میں مسئلہ بن سکتا ہے، اگر پی سی بی اور ایف آئی اے کی انکوائریز کا نتیجہ مختلف آیا تو پاکستان کیلیے ٹھیک نہیں ہوگا، ایف آئی اے کے سربراہ سے درخواست ہے کہ فی الحال اپنی انکوائری روک دیں اور پی سی بی کو اپنا کام مکمل کرنے دیں۔ اسی موقف کا اظہار پی سی بی کے چیف آپریٹنگ آفیسر سبحان احمد نے کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایف آئی اے سے صرف موبائل ڈیٹا کی تصدیق کا کہا گیا تھا،کھلاڑیوںکے رویے پر کوئی شکایت نہیں کی گئی، دوسری جانب آئی سی سی ذرائع کا کہنا ہے کہ پی ایس ایل ڈومیسٹک ایونٹ ہے،پی سی بی جس سے چاہے تحقیقات کرائے کونسل کو اس میں دخل دینے کا اختیار نہیں ہے، پہلے میچ سے قبل فکسنگ کی ٹھوس اطلاعات تھیں اس لیے وہ پاکستان سے شیئر کرلی گئیں۔
واضح رہے کہ ایف آئی اے کا کہنا ہے کہ ایجنسی نے کارروائی بورڈ کی درخواست پر ہی شروع کی تھی،اس غیر متوقع اقدام پر بورڈ کے ایوانوں میں کھلبلی مچی ہوئی ہے، ملک کے 2 بڑے ادارے آمنے سامنے آنے پر شائقین کرکٹ بھی پریشان ہیں کہ اختیارات کی اس کھینچا تانی میں اونٹ کسی کروٹ بیٹھے گا،الزامات کی زد میں آئے کرکٹرزبھی پی سی بی اور ایف آئی اے میں شٹل کاک بنے ہوئے ہیں، ایک روز قذافی اسٹیڈیم تو دوسرے دن وفاقی ادارے کے سوالوں کا جواب دینے کا سلسلہ جاری ہے،اس صورتحال میں چہ مگوئیاں بھی ہورہی ہیں کہ پنڈورا باکس کھلنے پر نئے نام سامنے آئیں گے۔
سابق کرکٹرز کا کہنا ہے کہ اسپاٹ فکسنگ ایک الگ نوعیت کا پیچیدہ کیس اورپی سی بی کا ہوم ورک کمزور نظر آتا ہے۔ اس کیس کو کسی نتیجے تک پہنچانے میں خصوصی دلچسپی لینے والے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے کہا ہے کہ ایف آئی اے کو تحقیقات کیلیے کسی بھی ادارے کی اجازت لینے کی ضرورت نہیں،اسی ادارے کے ایک سابق اعلیٰ عہدیدار کا کہنا ہے کہ حکومتی ادارے ہمیشہ مقدم اورکھیلوں سمیت کسی بھی تنظیم کے بارے میں تحقیقات کرسکتے ہیں، پی سی بی کو معاونت کرنا چاہیے۔ علاوہ ازیں اس حوالے سے ایک انٹرویو میں سابق ٹیسٹ کرکٹر عبدالقادر نے کہا کہ بدقسمتی سے گزشتہ تحقیقات کا نتیجہ صفر رہا، اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل کا نوٹس لینے پر وزیر داخلہ چوہدری نثار کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں، ایف آئی اے کی تحقیقات سے پی سی بی خوفزدہ ہے، بعض لوگوں کو اپنے نام آنے کا خوف ہے، کرکٹ سے گند صاف ہونے پر نجم سیٹھی کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے، ملوث کھلاڑیوں کو سخت سے سخت سزا دینا ہوگی، انھوں نے کہا کہ بورڈ کا انتظام سابق کرکٹرز کے پاس ہوتو اس طرح کے مسائل پر قابو پایا جاسکتا ہے۔