تپ دق ایک مہلک، لیکن قابلِ علاج بیماری ہے۔علاج میں بے قاعدگی یا کو تاہی سرزد ہوجائے تو یہ مزاحمتی ٹی بی کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ خیبر پختونخوا میں ہر سال 30 ہزار افراد اس مرض میں مبتلا ہو رہے ہیں۔
ٹی بی ایک خطرناک متعدی مرض ہے۔ جو مائیکو بیکٹیریم ٹیوبر کلوسس نامی جراثیم سے پیدا ہوتا ہے۔ یہ جراثیم جسم کے کسی بھی حصے پر حملہ آور ہو سکتے ہیں لیکن زیادہ تر پھیپھڑے اس کا نشانہ بنتے ہیں۔ ٹی بی کے مریضوں کے نامناسب علاج سے مریضوں میں ٹی بی ادویات کے خلاف مزاحمت پیدا ہوچکی ہے اور بڑی تعداد میں ملٹی ڈرگ ریزسٹنٹ ٹی بی کے مریضوں میں اضافہ ہورہا ہے۔ جن پر عام ٹی بی ادویات اثر نہیں کرتیں۔ دنیا بھر میں ٹی بی کے مرض کے لحاظ سے پاکستان چوتھا بڑا ملک ہے۔محکمہ صحت خیبر پختونخواکے اعدادوشمار کے مطابق صوبہ میں ٹی بی کا مرض خواتین میں زیادہ پایا جاتا ہے اوراس کی شرح مردوں میں 46جبکہ خواتین میں 54فیصد ہے۔ مزاحمتی ٹی بی لاعلاج مرض نہیں،ضرورت ہے حفظان صحت کے اصولوں سے متعلق شعور بیدار کرنے کی خصوصاً دیہی علاقوں میں صحت وصفائی پر توجہ دی جائے تو اس مرض پر کسی حد تک قابو پایا جا سکتا ہے۔ ٹی بی ایک قابل علاج مرض ہے بروقت علاج سے اس مرض سے چھٹکارا پایاجاسکتا ہے۔ ٹی بی کا نامکمل علاج ٹی بی کو ایم ڈی آر ٹی بی میں تبدیل کردیتا ہے جس کا علاج مشکل اور بے حد پیچیدہ ہے۔ سنہ 2016میں اسپتال میں ٹی بی کے 3710نئے مریض اور ایم ڈی آر ٹی ٹی کے 180مریض رجسٹر ہوئے، ملک میں ٹی بی سے بارے میں آگہی کی اشد ضرورت ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ٹی بی کے 0.5ملین نئے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں جبکہ سالانہ 5000اموات واقع ہوتی ہیں۔