گستاخی معاف کیجئے گا، ویسے تو میرے دیس کی 70/69سالہ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ اِس عرصے کے دوران ہمارے بیشتر سیاست دان اور حکمران ایسے بھی گزرے ہیں کسی نہ کسی حوالے سے جن کے کرپشن کے چرچے عام رہے ہیں، یہ گردن تان کر اور سینہ چوڑا کر کے لوٹ مار کرکے بچ نکلے، یہ قانون کے ہتھے چڑھے کہ نہیں ،یہ ایک لگ میٹر(معاملہ ) ہے۔
مگرآج اِن کی چوری اور سینہ زوری نے دوسروں کو بھی ایسا حوصلہ اور ہمت افزا ئی کی ہے کہ اِن دِنوں تو جیسے میرے مُلک اور میری دھرتی پر کرپشن کے معاملے میں مقابلے کا رجحان پایاجاتاہے،اور آج عالم یہ ہے کہ ہر کوئی کرپشن میں ایک دوسرے کا ریکارڈ توڑرہاہے،جو جتنابڑا کرپٹ ہے اُس کی اُسی لحاظ سے سرِعام و خاص مقامات پرتاج پوشیوں کا بھی سلسلہ چل نکالا ہے، لوگ کرپشن کرکے مُلک سے باہر جا بھی رہے ہیں تو ڈیل کر کے سینہ چوڑاکرکے واپس بھی وطن کو لوٹ رہے ہیں۔
اَب یہاں مجھے اِس تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ہے کیو نکہ راقم الحرف یہ سمجھتاہے کہ گزشتہ دِنوں جن کرپٹ لوگوں کی تاجپوشیاں کی گئیں ہیں وہ کوئی زیادہ پرانا معاملہ نہیں ہے کہ جِسے لوگ بھول گئے ہوں یہ کل ہی کی تو با ت ہے جب پی پی پی سے تعلق رکھنے والے ایک سابق صوبائی وزیرکی دبئی واپسی کے بعداسلام آباد سے گرفتاری ہوئی اور تُرنت رہائی بھی عمل میں آئی جن پر لگ بھگ کوئی دوارب سے زائد کرپشن کرکے قومی خزانے کو نقصان پہنچانے کا قوی خدشہ اور الزام تھا(اَب چونکہ بظاہر اِن کا معاملہ عدالت میں ہے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دودھ کا دودھ پا نی کا پا نی بھی ہوہی جا ئے گا)۔ اگرچہ، یہاں سب سے زیادہ قابل غور طلب نکتہ یہ ہے کہ اِن کی ضمانت کے بعد حیدرآباد کے ایک عوامی جلسے عام میں جیسی تاجپوشی کی تقریب عمل میں لا ئی گئی سمجھ نہیں آرہاہے کہ کس نے اِن کی تاج پوشی کی ؟؟ اورکیوں کی ؟اِن کی کن سیاسی اور ذاتی مقاصد کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے سرِ عام تاجپوشی کی گئی ؟؟ اِس قسم کی تاجپوشی اور تاجپوشیاں اگلے وقتوں میں کیا گل کھلا ئیں گیں ؟؟اِسی طرح اِن کی دیکھادیکھی حاضر وزیراعظم (جن سے متعلق ابھی پا نامالیکس کا فیصلہ تو محفوظ کرلیا گیاہے مگر قوی خیال یہی کیاجارہا ہے کہ عنقریب پانامالیکس کا فیصلہ اپریل کے وسط میں آنا ہے اَب یہ کیسا فیصلہ ہوگا؟؟اِس کے بارے میں کسی کو کچھ پتہ نہیں ہے؟؟ بہرحال )اِن کی سرِعام تونہ سہی مگر ایک کمرے میں چند لوگوں کی موجودگی میں ضرور تاج پوشی کی تقریب منعقد کی گئی اور اِن کے سر پر بھی سُونے کا تاج سجایا گیا۔
تاہم ابھی تک یہ بات واضح نہیں ہوپا رہی ہے کہ آخراِن اشخاص کی تا جپوشیوں کامقصد کیاتھا؟اور اِن تاجپوشیوں کی ضرورت کیو ں کر پیش آئی؟؟ جبکہ کہیں نہ کہیں سے کرپشن کی گُھٹی کا مزاہ دونوں ہی لے رہے ہیں۔ آج اگر ایسا ہی ہے تو پھر کسی نہ کسی کو ماضی کے حج کرپشن میں رہائی پا نے والے مولوی اور ایک ڈاکٹر کی بھی تاج پوشی کی تقریب ضرور کرنی چا ہئے ورنہ اِن کی حوصلہ شکنی ہوگی اور مولوی اور ڈاکٹر کو یہ احساس زندگی بھر کچوکے مارتااوربے چین کرتا رہے گا کہ تم نے بھی تو کوئی کم کرپشن نہیں کی تھی(اَب یہ اور بات ہے کہ اِن کی کرپشن کے ثمرات اور فائدے اِن کے بہت سے بڑوں کے ہاتھ لگے مگر اِن کرپشن کے مارے بیچارے پیادوں کے حصے میں سوائے بدنامی اور قید و بند اور تکالیف کے کچھ نہ آیا مگر یہاں اِن دونوں میں ایک بات ضرور یہ قدرے مشترک ہے کہ اِن دونوں کا تعلق بھی کہیں ناں کہیں سے پی پی پی سے ضرور رہاہے)بہرکیف، قارئین حضرا ت اگر کسی کی تاج پوشی ہونے اور نہ ہونے کے حوالے سے آپ میں سے کسی کے ذہن میں کچھ مزیدسوالات اور جوابات ہوں تو مجھ سے ضرور شیئر کیجئے گا۔
اِس منظر اور پس منظر میں راقم الحرف کو ایک واقعہ یا د آگیاہے ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ ایک غریب پاکستانی سعودی عرب گیاجیسے ہی یہ سعودی ایئرپورٹ پر اُترا اورا میگریشن کے لئے کا ونٹر پر گیاتو وہاں پر موجود عملہ اِس کا ایک کاٹا ہوا ہاتھ دیکھ کر حیران ہوگیااور اِسی دوران عملے کے اراکین نے اِس سے پوچھ گُچھ کرتے ہوئے ایک سوال کرتے ہوئے یہ بھی کرڈالاکہ کیا پاکستان میں بھی چوری کی سزا ہاتھ کاٹنا ہوگئی ہے؟؟ تو اِس سوال کے جواب میں بیچارے مسافر نے ایک زوردار قہقہ لگایا اور بولا”نہیں جناب ایسا ہرگز نہیں ہے جیساکہ آپ سوچ رہے ہیں اور سمجھ رہے ہیں بلکہ اصل بات یہ ہے کہ میرا ہاتھ تو ایک حادثے کی وجہ سے کٹ گیاہے آج اگر پاکستان میں بھی چوری چکاری ، ڈکیتی اور کرپشن کی سزا ہاتھ کاٹنے کی ہوتی تو یہ جہاز جو ابھی ابھی پاکستان سے سعودی سرزمین پر پہنچا ہے اور اِس میںکئی سو پاکستانی مسافر سوار تھے میری طرح سب ہی مسافروں کے ایک ایک یا دونوں ہاتھوں کٹے ہوئے ہوتے ..یعنی کہ کوئی بھی صحیح سالم دونوں ہاتھوں کے ساتھ ایک سعودی عرب ہی کیا ؟؟ ساری دنیا میں کہیں بھی نہیں جاپا…، وہاںکسی کے یہ پوچھے بغیر ہی کہ تم کون ہو؟؟ کس مُلک کے شہری ہو؟ اِس کے کٹے ہوئے ہاتھ ہی سب کچھ اور ساری کہانی بتا دیتے کہ اِس شخص کا تعلق کس مُلک سے ہے۔“
گوکہ آج سرزمینِ پاکستان میں چوری چکاری ، ڈکیتی اور کرپشن کا یہ عالم ہے کہ اُوپر سے نیچے تک (کسی بھی جنس خواہ مرد و عورت اور کسی بھی عمر کا )کوئی بھی شخص یا فرد ہووہ چلتے پھرتے دوسروں کی چیزیں اُٹھانے اور کھلے عام اور دن و رات چوری چکاری ، ڈکیتی اور کرپشن کرنے میں اتنا مشتاق اور ماہر ہے کہ جیسے اِسے اِس کے علاوہ کوئی اور کام کاج ہی نہیں آتا ہے اِس کی وجہ بس یہی ہے کہ ہمارے دیس میں قانون تو ہے مگر اِس میں ربڑ سے زیادہ لچک اور نرمی ہے جو قانون کو جیسا چاہتاہے اپنی مرضی سے استعمال کرکے مزے لوٹ لیتاہے اور سب کچھ بُرا کرکے بھی ضرورت سے زیادہ لچکدارقانون کا فائدہ اُٹھاکربچ نکلتاہے اوراربوں کھربوں کی کرپشن کرکے بھی اپنے سر پر سونے کا تاج ایسے سجا لیتاہے کہ جیسے اِس نے وہ بھلا کا کیا ہے جوکوئی کر نہیں سکتا ہے۔
آج اگرپاکستان میں بھی صحیح معنوں میں قانون کی بالادستی اور قانون کا اطلاق ہوتا تو یقینا سرزمینِ پاکستان میںچوری چکاری ،ڈکیتی اور کرپشن کرنے والوں کے بھی ہاتھ کاٹے جاتے تومیرے دیس میں نہ چور وں کی تعداد بے شمار ہوتی اور نہ سیاستدانوں اور حکمرانوں کا شمار کرپٹ ترین لوگوں میں ہوتا،ہاں ابھی کچھ نہیں بگڑا ہے ، قوم اپنے کرپٹ سیاستدانوں اور حکمرانوں کو بھی برداشت کرلے گی،اور کمپرومائز کرلے گی اور یہ سمجھ لے گی کہ ہمارے قانون کا اطلاق تو کرپٹ حکمرانوں اور سیاستدانوں پر نہیں ہوتا ہے تاہم اگر کوئی کہیں سے بھی اُٹھے اور بس اتنا ہی کام کردے اور ایک یہی قانون بنا دے کہ سرزمینِ پاکستان میں جو بھی جہاں کہیں سے تعلق رکھتا ہواور جیسا بھی حکمران یا بڑا یا چھوٹا سیاستدان یا حکومتی چیلا یا کسی بڑے ادارے کا سربراہ ہی کیوں نہ ہویا بیوروکریٹس ہو اگروہ کرپشن میں ملوث پایا جائے تو سزا کے طور پر اِس کے ہاتھ تو نہ کاٹے جا ئیں مگر اتناضرور کیا جائے کہ سیدھے ہا تھ کی پانچ انگلیوں میں سے کم از کم آخر کی دو انگلیاں ہی ضرورکاٹ دی جا ئیں تویہ بھی بہت اچھاعمل ہوگا اِس طرح کم از کم اتناتو ضرور ہوگا کہ جس کی انگلیاں کٹی ہوئی ہیں وہ تاحیات پہچاناجا ئے گا کہ اِس حکمران اور سیاستدان اور دیگر اشخاص کی انگلیاں کس پاداش میں کٹی ہیں ..؟؟