اندر کی بات ۔ :اصغرعلی مبارک،۔کالم نگار
پنجاب حکومت کے اربوں روپے کا راولپنڈی رنگ روڈ منصوبہ آغاز پر ہی تنازعات کا شکار ہو گیا ہے اور بڑے بڑے پردہ نشینوں کے بے نقاب ہونے کاامکان ہے مگر اس سے بڑا خدشہ ہے کہ کہیں کپتان عمران خان کی حکومت میں ملوث کھلاڑیوں کو کلین چٹ نہ مل جائے ماضی جس بھی معاملے پر استعفے طلب کیے گئے بعد الزامات ثابت نہ ہونے پر کلین چٹ دے کر انہیں پارسائی کا سرٹیفکیٹ جاری کر دیا گیا آٹا چینی ادویات اور جتنے بھی اسکینڈلز سامنے آئے سب کے صرف میڈیا کا مرکز رہے تحریک انصاف کی حکومت کرپشن کے خاتمے کا اعلان کر کے عوامی طاقت سے اقتدار میں آئی میاں نواز شریف کے خلاف جتنے بھی کیس بنے اور خود مسلم لیگ ن دور یا ماضی میں مخالفین نے بنوائے تحریک انصاف کی حکومت نے کامیابی حاصل کرنے کے لیے الیکٹوبل کو ناگزیرقراردیا وفاقی وزیر ہوا بازی غلام سرور خان بھی ان میں سے ایک ہیں جو ماضی میں مختلف حکومتوں کا حصہ رہے جن پر رنگ روڈ منصوبہ کے حوالے سے الزامات عائد کئے گئے ہیں تاہم انہوں نے عوام کے سامنے حلف اٹھا کر کہا ہےکہ راولپنڈی رنگ روڈ منصوبہ کی مبینہ بدعنوانی میں ملوث نہیں ہیں اور نہ انکا کوئی عزیز رشتہ دار ملوث ہے دوسری جانب وزیراعظم کے معاون خصوصی زلفی بخاری نے بھی راولپنڈی رنگ روڈ منصوبہ الزامات کے بعد تحقیقات کے لئے خود کو پیش کرتے ہوئے عہدے سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا ہے یہ اعلان اس وقت سامنے آیا جب قومی احتساب بیورو کے چئیرمین نے تحقیقات کا حکم دیا قومی احتساب بیورو کے چیئرمین جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نے راولپنڈی رنگ روڈ کے منصوبے میں مبینہ بدعنوانی کے معاملے کی تحقیقات کا حکم ڈی جی نیب راولپنڈی کو دیا ہے۔دوسری جانب نیب کے علاوہ حکومت پنجاب نے بھی اعلی سطح کی تحقیقات کا فیصلہ کیا ہےترجمان کے مطابق ڈی جی اینٹی کرپشن کو جامع رپورٹ مرتب کرنے کی ہدایت دے دی گئی ہے اور انہی ںساتھ ہی معاملے کی تحقیقات کے لیے کمیٹی تشکیل دینے کا حکم دے دیا گیا ہے۔حکومت پنجاب نے ڈی جی اینٹی کرپشن کو ہدایت دی ہے کہ اسکینڈل کی انکوائری کمیٹی میں ماہرین کو بھی شامل کیا جائے تاکہ کرپشن کرنے والے انجام سے بچ نہ سکیں۔
ترجمان صوبائی حکومت نے کہا کہ راولپنڈی رنگ روڈ اسکینڈل کے تمام کرداروں کو ان کے انجام تک پہنچایا جائے گا۔وزیر اعظم کے معاون زلفی بخاری نےاپنے عہدے سے مستعفی ہونے کا اعلان پیر کی شام کیا ۔ ٹوئٹر پر اس حوالے سے اعلان کرتے ہوئے وزیر اعظم کے معاون زلفی بخاری نے کہا کہ ’وزیرِ اعظم عمران خان نے ہمیشہ کہا ہے کہ اگر کسی سرکاری عہدیدار کا نام کسی انکوائری میں آئے تو اسے اپنا نام الزامات سے پاک ہونے تک اپنے عہدے سے مستعفی ہو جانا چاہیے۔’میں اس حوالے سے ایک مثال قائم کرنے جا رہا ہوں اور میں نے رنگ روڈ انکوائری میں لگائے گئے الزامات اور میڈیا کی جانب سے کی گئی غلط بیانی سے اپنا نام پاک ہونے تک مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔‘وزیر اعظم کو جب اس منصوبے کے نقشے میں مبینہ تبدیلی کا علم ہوا تھا تو انھوں نے پنجاب حکومت کو فوری طور پر اس کی تحقیقات کا حکم دیا.سابق حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ نواز کے دور میں راولپنڈی اور اسلام آباد میں بڑھتی ہوئی ٹریفک کے دباؤ کو کم کرنے کے لیے رنگ روڈ کے منصوبے کی ابتدائی طور پر منظوری دی گئی تھی جس کے تحت راولپنڈی کے علاقے روات سے ایک سڑک تعمیر کی جانی تھی جسے راولپنڈی شہر کے باہر سے ہوتے ہوئے ترنول کو جی ٹی روڈ اور پھر موٹر وے کو ملانا تھا۔رنگ روڈ کی تعمیر سے جی ٹی روڈ سے پنجاب سے صوبہ خیبر پختونخواہ جانے والی ٹریفک اور بالخصوص ہیوی ٹریفک نے رنگ روڈ استعمال کرنا تھا جس کی وجہ سے اسلام آباد ہائی وے پر ہیوی ٹریفک کا دباؤ کم ہونا تھاپنجاب حکومت کی طرف سے اربوں روپے کی لاگت کا راولپنڈی رنگ روڈ منصوبہ تعمیر کے آغاز سے پہلے ہی تنازعات کا شکار ہو گیا راولپنڈی رنگ روڈ منصوبے کے نقشے میں مبینہ طور پر تبدیلی کروانے سے متعلق جن افراد کے نام لیے جا رہے ہیں ان میں وزیر اعظم عمران خان کے قریبی ساتھی زلفی بخاری کے علاوہ وفاقی وزیر برائے ہوا بازی غلام سرور خان بھی شامل ہیں۔ چیئرمین چیف منسٹر انسپکشن ٹیم گلزارحسین شاہ کو کمشنر راولپنڈی لگایا اور راولپنڈی کی ساری انتظامیہ کمشنرکیپٹن ریٹائرڈ محمد محمود‘ ڈپٹی کمشنر راولپنڈی محمد انوار الحق‘ ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ریونیوکیپٹن (ر) شعیب علی اور اسسٹنٹ کمشنر صدر غلام عباس کو عہدوں سے ہٹا دیا انھیں راولپنڈی رنگ روڈ کی انکوائری کا حکم دے دیا‘ کمشنر گلزارحسین شاہ نے کام شروع کیا اور 11مئی کو انکوائری رپورٹ آ گئی۔سنہ 2016 میں اس منصوبے پر پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے اصول کے تحت اس کی ابتدائی فزیبلٹی رپورٹ تیار کرنے کے منصوبے پر کام شروع ہوا اور اس منصوبے میں نیسپاک کو بھی شامل کیا گیا جبکہ راولپنڈی ڈویلپمنٹ اتھارٹی (آر ڈی اے) کو ان تمام امور کی نگرانی کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔
رنگ روڈ منصوبے کے حوالے سے نیسپاک کی ابتدائی رپورٹ کو ایشیئن انفراسٹریکچر انویسٹمنٹ بینک نے منطور کر لیا تھا۔ایشیئن انویسٹمنٹ بینک نے آسان شرائط پر اس منصوبے کے لیے 40 کروڑ ڈالر کے قرضے کی پیشکش بھی کی تھی۔ اس بینک کے ساتھ مذاکرات سنہ 2018 میں ہوئے تھے اور دو سال سے بھی زیادہ کا عرصہ گزرنے کے باوجود دوبارہ کوئی مذاکرات نہیں ہوئے۔ مسلم لیگ نواز کے دور میں اس منصوبے پر عملی طور پر آغاز نہیں ہو سکا تھا اور سنہ 2018 کے عام انتخابات کے بعد پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے اس منصوبے پر عمل درآمد کرنے کا فیصلہ کیا اور گذشتہ برس اس منصوبے کو عملی شکل دینے کے لیے پیپر ورک پر دوبارہ کام شروع کیا گیا تھا.اس منصوبے میں ہونے والی بےقاعدگیوں کے بارے میں جب مقامی میڈیا پر خبریں آئیں تو وزیر اعظم عمران خان نے وزیر اعلیٰ پنجاب کو اس معاملے کی تحقیقات کرنے کا حکم دیا. راولپنڈی رنگ روڈ منصوبے کے نقشے میں مبینہ طور پر تبدیلی کروانے سے متعلق جن افراد کے نام لیے جا رہے ہیں ان میں وزیر اعظم عمران خان کے قریبی ساتھی زلفی بخاری کے علاوہ وفاقی وزیر برائے ہوا بازی غلام سرور خان بھی شامل ہیں۔ جس پر چیئرمین چیف منسٹر انسپکشن ٹیم گلزارحسین شاہ کو کمشنر راولپنڈی لگایا اور راولپنڈی کی ساری انتظامیہ کمشنرکیپٹن ریٹائرڈ محمد محمود‘ ڈپٹی کمشنر راولپنڈی محمد انوار الحق‘ ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ریونیوکیپٹن (ر) شعیب علی اور اسسٹنٹ کمشنر صدر غلام عباس کو عہدوں سے ہٹا دیا.چیف سیکرٹری پنجاب جواد رفیق ملک کو راولپنڈی رنگ روڈ منصوبے میں بے ضابطگیوں کے حوالے سے حقائق کو منظر عام پر لانے کی ذمہ داری سونپی گئی جنھوں نے کمشنر راولپنڈی ڈویژن کی سربراہی میں فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی تشکیل دی جس نے چند روز قبل اس بارے میں رپورٹ وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو پیش کی.رپورٹ میں راولپنڈی رنگ روڈ منصوبے میں مبینہ طور پر ہونے والی بےضابطگیوں کی ذمہ داری اس وقت کے راولپنڈی ڈویژن کے کمشنر محمد محمود اور لینڈزایکوزیشن کلیکٹر وسیم علی تابش پر ڈالی گئی, دونوں سرکاری افسران کا معاملہ نیب بھجوانے کی سفارشات پیش کی گئی.رپورٹ میں اس بات کا ذکر کیا گیا ہے کہ دونوں افسران نے غیر قانونی طور پر دو سے تین ارب روپے اس منصوبے کے لیے زمین کی خریداری کی مد میں خرچ کیے.رپورٹ میں اس بات کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ سابق کمشنر راولپنڈی محمد محمود کے ایک بھائی کا نجی ہاوسنگ سوسائٹی مکہ سٹی کے ساتھ تعلق کا انکشاف ہوا سابق کمشنر نے اپنے بھائی کو فائدہ پہنچانے کے لیے یا اس کے ذریعے بے نامی طریقے سے خود کو فائدہ پہنچانے کے لیے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا۔لینڈز ریکوزیشن کلکٹر کے بارے میں اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وسیم علی تابش نے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے ضلع اٹک میں دو ارب سے زائد کی رقم خرچ کی اور اتنی بڑی رقم کی ادائیگی اٹک لوپ کے رینٹ سینڈیکیٹ کو فائدہ پہنچانے کے لیے کی گئی ,پورٹ میں سابق وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کے سابق پرنسپل سیکرٹری توقیر شاہ کا بھی ذکر کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ توقیر شاہ اور نیسپاک کے چند افسران بھی ان بے ضابطگیوں کے ذمہ دار ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ رینٹل سنڈیکیٹ میں ملوث تمام لوگوں کے خلاف تحقیقات کی جائیں اور ایسا کرنے سے استفادہ کرنے والے بے نامی حصہ دار بھی سامنے آ سکتے ہیں.راولپنڈی رنگ روڈ منصوبے میں آنے والی 12 نجی ہاؤسنگ سوسائیٹیز اور ان کے اثاثوں کی چھان بین کرنے کی ذمہ داری فیڈرل بورڈ آف ریونیو اور ایف آئی اے کو دی جائے۔ رپورٹ میں یہ سفارش بھی کی گئی ہے کہ ان ہاؤسنگ سوسائیٹیز میں موجودہ یا ریٹائرڈ افسران کے بے نامی حصہ دار ہونے کے حوالے سے تحقیقات کی جائیں۔رپورٹ کی روشنی میں ڈپٹی کمشنر راولپنڈی اور ڈپٹی کمشنر اٹک کے علاوہ اے ڈی سی آر راولپنڈی، اے سی راولپنڈی صدر اور فتح جنگ اور چیف آفیسر فتح جنگ تحصیل کونسل کو تبدیل کر دیا گیا ہے اور اس رپورٹ میں یہ سفارش کی گئی ہے کہ متعقلہ حکام ان افراد سے ان کی مجرمانہ غفلت اور خاموشی پر ان کا مؤقف بھی ضرور معلوم کریں۔رپورٹ میں فوج کے دو سابق افسران جن میں میجر جنرل ریٹائرڈ سلیم اسحاق اور کرنل ریٹائرڈ عاصم ابراہیم پراچہ شامل ہیں کا بھی ذکر کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ اس معاملے میں قومی سلامتی کے حساس اداروں کا نام استعمال کرنے اور رینٹل سنڈیکیٹ میں ان کے کردار کے حوالے سے بھی معلومات اکھٹی کی جائیں۔رپورٹ میں سیاست دانوں کا ذکر نہیں ہے تاہم اس حوالے سے وفاقی وزیر برائے ہوابازی غلام سرور خان اور وزیر اعظم کے معاون خصوصی ذلفی بخاری کا نام لیا جا رہا ہے۔راولپنڈی کے حکام کے مطابق جس علاقے سے یہ رنگ روڈ گزرے گی وہاں پر زلفی بخاری کے رشتہ داروں کی کافی زمین ہے۔وفاقی وزیر برائے ہوا بازی غلام سرور خان نے اس فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ اس فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی میں شامل دو افراد نے اس رپورٹ سے اتفاق نہیں کیا اور نہ ہی ان کے دستخط اس رپورٹ پر موجود ہیں,انھوں نے کہا کہ جس علاقے سے یہ رنگ روڈ گزرے گی وہاں پر نہ تو ان کی اور نہ ہی ان کے رشتہ داروں کی زمنیں ہیں۔ان کی جانب سے کی جانے والی ایک پریس کانفرنس کے دوران بھی غلام سرور خان کافی غصے میں تھے اور انھوں نے اس معاملے پر الزام تراشی کرنے کی بنا پر میڈیا کے کچھ نمائندوں اور حزب مخالف کی جماعت پاکستان مسلم لیگ نواز کے رہنماؤں کے خلاف ہتک عزت کا دعویٰ دائر کرنے کا اعلان کیا۔غلام سرور خان کا کہنا تھا کہ اگر سوسائٹی کے کسی مالک کے ساتھ ان کا کوئی تعلق ہے تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ ان کا اس ہاؤسنگ سوسائٹی میں کچھ شیئر ہے۔کمشنر گلزار حسین کی رپورٹ میں انکشاف ہوا پنجاب حکومت نے 2017 میں راولپنڈی پر ٹریفک کا دباؤ کم کرنے کے لیے 40کلومیٹر کی رنگ روڈ بنانے کا فیصلہ کیا‘ پلان بھی بن گیا اور بینک آف چائنہ سے 400 ملین ڈالر لون بھی منظور ہو گیا لیکن منصوبہ شروع ہونے سے پہلے میاں شہباز شریف کی حکومت ختم ہو گئی اوریہ منصوبہ بھی دوسرے بے شمار منصوبوں کی طرح ٹھپ ہو گیا لیکن پھر یہ اچانک نہ صرف ایکٹو ہو گیا بلکہ اس میں 26کلومیٹر کا اضافہ بھی ہو گیا‘ اس میں اٹک لوپ بھی شامل ہو گئی۔راولپنڈی رنگ روڈ سوسائٹی کے پاس 970 کنال زمین تھی لیکن سوسائٹی کے مالک جنید چوہدری نے 20 ہزار فائلیں بنائیں اور مارکیٹ میں ایک ماہ میں یہ ساری فائلیں بیچ دیں‘ کمشنر گلزار حسین کی رپورٹ کے بعد مزید تحقیقات ہوئیں تو پتا چلا فائلیں صرف 20 ہزار نہیں تھیں ان کی تعداد 30 ہزار ہے اور اس میں ہوا بازی کے وفاقی وزیر غلام سرور خان کے صاحب زادے منصور خان پارٹنر ہیں‘ کمشنر گلزار حسین کی رپورٹ نے سول ایوی ایشن کی طرف سے نوا سٹی کے فوری این او سی پر بھی سوال اٹھایا‘ یہ این او سی حیران کن اسپیڈ سے جاری ہوا تھا‘ جنید چوہدری نے یہ فائلیں رئیل اسٹیٹ مارکیٹنگ کمپنیوں کو بلک میں دیں‘ پراپرٹی ڈیلروں نے سوشل میڈیا پر اشتہارات دیے اور ایک ماہ میں 20 ہزار فائلیں بیچ دیں۔ یہ رپورٹ ثابت کرتی ہے کہ کس طرح مل کر سیاست دانوں‘ بیوروکریٹس اور ریٹائرڈ افسرا ن نےعوام کی جیب سے کھربوں روپے نکال لیے ہیں‘ جس پر نیب اس معاملے کا ہر پہلو سے جائزہ لے گا تاکہ ذمہ داروں کا تعین کر کے ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی عمل میں لائی جا سکےاور راولپنڈی رنگ روڈ اسکینڈل کے تمام کرداروں کو ان کے انجام تک پہنچایا جائے گا تحریک انصاف کی حکومت کے لیے یہ ایک بڑا ٹیسٹ کیس ھے,