بلا شبہ ماں کے قدموں تلے جنت ہوتی ہے، اب ماں تو ہر انسان کی ہوتی ہے ظاہر ہے ہر انسان کو کسی نا کسی عورت نے ہی جنم دیا ہے اور جنم دینے والی عورت ہی ماں کہلاتی ہے۔ مانتا ہوں کہ ماں کا نعیم البدل کوئی نہیں’ لیکن ہمیں یہ چھوٹی سی بات بھی سمجھنی چاہئے کہ جیسے ہمیں اپنی ماں کے قدموں تلے جنت نظر آتی ہے بالکل اسی طرح ہماری پیدا کردہ اولاد کو بھی کسی عورت نے جنم دیا ہے اور ہماری اولاد کی جنت بھی اُن کی ماں کے قدموں تلے ہے یعنی ہماری بیوی کے قدموں تلے۔ ہم اپنی ماں کو تو بہت پیار و محبت دیتے ہیں لیکن ہم بیوی کی’ اولاد کے سامنے اتنی زیادہ توہین کرتے ہیں کہ خدا کی پناہ۔ کیا بیوی ایک عورت نہیں؟ کیا بیوی ایک ماں نہیں؟ کیا اس ماں کے قدموں تلے ہماری اولاد کی جنت نہیں۔
بعض مرد کہتے ہیں کہ بیوی تو دوبارہ مل جاتی ہے لیکن والدین بہن بھائی دوبارہ نہیں ملتے۔ ایسے بھائیوں سے صرف اتنی گزارش ہے کہ جیسے آپ کو اپنی بہن بیٹی پیاری ہے بالکل ایسے ہی سب کو اپنی بہن بیٹی بہت پیاری ہوتی ہے’ ایسی سوچ والے مرد کو کوئی بار بار تو کیا پہلی بار بھی اپنی بہن بیٹی نہیں دے گا، نہ ہی کسی کے پاس بہنیں بیٹیاں فالتو ہوتی ہیں’ اگر یہی بات کوئی آپ کی بہن بیٹی کے بارے میں بولے تو کیا آپ کو اچھا لگے گا؟ اس لئے اپنی سوچ کو بدلیں سب رشتوں کا اپنا مقام اور حق ہوتا ہے۔ دنیا صرف ایک رشتے سے نہیں چلی آرہی’ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ماں’ باپ’ بہن بھائی’ بیوی’ بیٹی’ شوہر’ ماموں’ خالہ’ چاچو’ ساس’ سسر جیسے خوبصورت رشتوں سے نوازا ہے ان خوبصورت رشتوں کی ہمیں قدر کرنی چاہئے۔
والدین کا بہت بڑا مقام ہے’ اللہ رب العزت شب قدر میں بڑے بڑے گنہگاروں کی مغفرت فرما دیتے ہیں لیکن جو ماں باپ کا نافرمان ہوتا ہے شب قدر میں بھی اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت نہیں فرماتیجبکہ ماں کے ہاتھ اُٹھنے پر اللہ تعالیٰ کبیرہ گناہوں کو بھی معاف فرما دیتے ہیں۔ اس لئے جو شخص اپنے ماں باپ سے حسن سلوک کرتا ہے، اللہ رب العزت اس بندے کی زندگی میں برکتیں عطا فرماتے ہیں۔ آپ کے والدین ہیں تو آپ یہ بھی سوچو کہ آپ اور آپ کی بیوی خود بھی چند معصوم بچوں کے والدین ہیں، بچوں کے سامنے اپنی بیوی کی توہین کریں گے یا بیوی شوہر کی توہین کرے گی تو بچے غلط مطلب لیں گے ‘ اس غلط مطلب کی وجہ سے ہی ایک دن آپ کی اولاد نافرمان بن کر آپ کے سامنے کھڑی ہو جائے گی’ آج کل تو اولاد ماں باپ کا گریبان تک پکڑ لیتی ہے’ دراصل یہ ہماری ناقص پرورش کا نتیجہ ہے جو وقت آنے پر ہمیں ملتا ہے۔
بنی اسرائیل کے تین بندے سفر پر نکلے، بارش ہو گئی تو اس سے بچنے کیلئے وہ غار کے اندر چلے گئے۔ بارش کی وجہ سے ایک بڑی چٹان گری اور غار کے منہ کے اوپر آگئی’ چٹان اتنی وزنی تھی کہ تینوں نے مل کر زور لگایا مگر وہ چٹان ہلتی بھی نہ تھی۔ اب کوئی وہاں تھا بھی نہیں جو ان کی مدد کرتا، تینوں زور لگا لگا کر جب تھک گئے، عاجز آگئے تو اب ان کو موت آنکھوں کے سامنے نظر آنے لگ گئی کہ غار کا منہ بند ہے، ہم بھوکے پیاسے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر یہیں مر جائیں گے۔ اس وقت انہوں نے سوچا کہ اللہ رب العزت کے سامنے اپنا کوئی ایسا عمل پیش کریں جو خالص اللہ تعالیٰ کی رضا کیلئے کیا ہو جس کو اللہ تعالیٰ قبول کرکے ہمیں اس مصیبت سے نجات دے دیں۔ چنانچہ انہوں نے اپنے اپنے نیک عمل اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش کئے۔
ان میں سے ایک نے یہ کہا کہ میں بکریاں چراتا تھا اور جب گھر واپس آتا تو میں اپنی والدہ کو دودھ دیا کرتا تھا، ایک رات جب میں آیا تو والدہ سو چکی تھی، میں دودھ لے کر کھڑا رہا کہ والدہ کی آنکھ کھلے گی تو میں دودھ دوں گا۔ یا اللہ! وہ پوری رات سوئی رہیں، ان کی آنکھ نہیں کھلی اور میں پوری رات ہاتھ میں دودھ کا گلاس لے کر انتظار کرتا رہا۔ اگر یہ میرا عمل آپ کو پسند ہے تو ہمیں اس مصیبت سے نجات دیجئے۔ تو اس عمل کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے ایک حصہ (غار کا جو منہ ) کھول دیا۔
پھر دوسرے نے اپنا عمل پیش کیا کہ میری ایک کزن تھی، میرا اس کے ساتھ نفسانی، شہوانی تعلق تھا میں نے کسی بہانے سے اس کو زنا پر آمادہ کر لیا، جب میں زنا کرنے لگا تو اس وقت اس نے مجھے کہا کہ تم اللہ کی مہر کو کیوں توڑتے ہو؟ جو چیز شریعت میں تمہارے لئے حرام ہے، تم اس کا ارتکاب کیوں کرتے ہو؟ اس کی بات میرے دل میں ایسی بیٹھ گئی کہ موقع کے باوجود میں نے اس کو بھیج دیا اور اس گناہ کا ارتکاب نہیں کیا۔ اس عمل کو اللہ قبول کر لے! چنانچہ اس عمل کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ایک حصہ اور غار کا منہ کھول دیا۔
پھر تیسرے نے اپنا عمل پیش کیا کہ میں نے بکریاں پالیں، میرا ایک پارٹنر تھا، کچھ عرصے کے بعد وہ چلا گیا میں اس کے مال کو اسی طرح بڑھاتا رہا، کئی سالوں کے بعد جب وہ آیا اور اس نے مانگا تو میں نے اس کا پورا مال اسے دے دیا۔ وہ حیران ہو گیا اور سارا مال لے کر چلا گیا۔ اے اللہ! میں نے آپ کے لئے یہ عمل کیا اگر یہ عمل آپ کو پسند ہے تو ہمیں اس مصیبت سے نجات دیجئے! تو وہ چٹان منہ سے ہٹ گئی اور اللہ تعالیٰ نے ان تینوں کو اس مصیبت سے نجات عطا فرمائی۔
اس واقعہ پر غور کریں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ ماں سے حسن سلوک کرنے پر اللہ تعالیٰ نے کتنا بڑا انعام دیا؟ زنا کا موقع ہونے کے باوجود زنا نہ کیا تو اللہ تعالیٰ کو اپنے اس بندے کا یہ عمل کتنا پسند آیا؟ امانت میں خیانت نہ کرنے پر اللہ تعالیٰ نے کتنا بڑا اجر دیا؟ ماں باپ کی خدمت اللہ کے ہاں بہت پسندیدہ عمل ہے۔ خدا را جیسے آپ اپنے والدین سے محبت کرتے ہیں اپنی اولاد کو بھی خود سے محبت کرنا سکھائیں’ نا کہ شوہر بیوی سے لڑتا رہے اور بیوی شوہر سے لڑتی رہے۔ بچے جو کچھ دیکھ کر بڑے ہوتے ہیں وہی عمل جوانی میں کرتے ہیں۔ اگر باپ کو دیکھیں گے کہ ہمارا باپ ہماری ماں کی ہر وقت توہین ہی کرتا رہتا ہے تو ایسی اولاد کے ذہن میں ہمیشہ کیلئے بیٹھ جائے گا کہ عورت کا دنیا میں کوئی مقام نہیں ہے یعنی عورت مرد کے پائوں کی جوتی ہے۔ بالکل اسی طرح اگر ایک بیوی اپنے خاوند کی ہر وقت توہین کرتی رہے گی تو اولاد دیکھ کر یہی سیکھے گی کہ خاوند کا دنیا میں کوئی مقام نہیں ہے۔
آج کل سماج میں بیوی شوہر کو پائوں کا جوتا بنانے میں مصروف ہے اور شوہر بیوی کو پائوں کے نیچے روندنے کی کوشش میں لگا ہے۔ آج کل کے میاں بیوی کی آپس کی محبت تو پتہ نہیں کس قبرستان میں دفن ہو گئی ہے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر طلاق و خلع پر آجاتے ہیں۔ نہ عورت میں برداشت رہا ہے اور نہ ہی مرد میں برداشت رہا ہے۔ میاں بیوی کے آپس کے جھگڑوں سے سب سے زیادہ نقصان بیچاری اولاد کو پہنچتا ہے’ اب والدین کے درمیان طلاق ہو جائے تو شامت اولاد کی آجاتی ہے’ اولاد ماں کے پاس جائے تو باپ طعنے دیتا ہے اور اگر اولاد باپ کے پاس جائے تو ماں بچوں کو طعنے دیتی ہے کہ ”میں نے تمہیں اتنی مشکل کے ساتھ پالا پوسا اور تم ہو کہ اپنے باپ کی غلط پٹیوں میں آکر مجھے قصور وار سمجھتے ہو”۔ اب ایسے میں اولاد کہاں جائے؟ اولاد کو تو میاں بیوی دونوں ہی نے جنم دیا ہوتا ہے۔
آج کل چھوٹی چھوٹی باتوں پر طلاقیں ہو رہی ہیں’ طلاق و خلع کے کچھ ہی دنوں بعد میاں بیوی کو شدت سے احساس ہوتا ہے کہ انہوں نے طلاق و خلع کا فیصلہ جذبات میں آکر یا گھر والوں کے پریشر میں آکر’ یا رشتے داروں کے کہنے پر غلط کیا ہے’ کیونکہ سب رشتے ایک دن طلاق یافتہ مرد و عورت کو چھوڑ جاتے ہیں’ ہمارے ہاں لوگ ایک طلاق پر تو رکنے کا نام ہی نہیں لیتے’ ڈائریکٹ تین طلاقوں پر ہی جا کر بریک لگتی ہے۔ بے شمار ایسے واقعات موجود ہیں کہ جب میاں بیوی میں طلاق ہوتی ہے تو سماج کیا اپنے ہی گھر والے طلاق یافتہ عورت و مرد کو جینے نہیں دیتے اور بہت سے لوگ غم کا شکار ہو کر خودکشیاں کر بیٹھتے ہیں’ مختلف نشوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ آج کے دور میں 99 فیصد طلاقیں غلط ہو رہی ہیں اور 100فیصد دعوے سے کہتا ہوں کہ سال، دو سال نہیں بلکہ چند ہی دنوں میں طلاق یافتہ عورت و مرد کو احساس ہو جاتا ہے کہ انہوں نے جذبات میں آکر علیحدگی کا فیصلہ غلط کیا ہے’ پھر سوچتے ہیں کہ چھوٹی سی تو بات تھی کاش ہم برداشت کر لیتے تو آج ہم میاں بیوی ہی ہوتے۔ کیا میرا یہ دعویٰ غلط ہے؟ کیا طلاق یافتہ مرد و عورت اپنے غلط فیصلوں پر پچھتا نہیں رہے؟ ہمیں خود میں برداشت پیدا کرنا ہو گا’ گھر شیطانی تعویذوں یا شیطانی مشوروں سے نہیں بلکہ عقل’نرم مزاجی اور پیار و محبت سے چلتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ہدایت دے اور کامل ایمان پر پیاری موت دے۔