”اے محبوب! جب تم سے میرے پیارے بندے میرے متعلق پوچھیں تو فرما دو ۔کہ میں نزدیک ہی ہوں ۔پکارنیوالے کی پکار کا جب بھی وہ مجھے پکارتا ہے جواب دیتا ہوں انہیں بھی چاہےے کہ میری سنیں اور مجھ پر ایمان لائیں تاکہ ہدایت پا جائیں۔“
شان نزول:اس آیت کریمہ کے شانِ نزول کے بارے میں بہت روایات ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ بعض صحابہ نے جوش عشق الہٰی میں تڑپ کر بارگاہِ رسالت میں عرض کیا کہ ہمارا رب کہاں ہے ؟اور وہ کیسی پکار اور کسی طرح کی فریاد سنتا ہے ۔آہستہ یا بلند آواز کی تب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی ۔
تفسیر:
اگر چہ اس کا نزول خاص موقعہ پر ہوا مگر اس کی عبارت عام ہے یعنی جب کبھی کسی زمانے میں کہیں کے مسلمان آپ سے میرا پتہ پوچھیں۔ سوال سے بنا جس کے معنی ہیں مانگنا ۔رب فرماتا ہے۔ اور دوسری جگہ ۔رب فرماتا ہے۔
یہاں دونوں معنے بن سکتے ہیں ۔یعنی جب میرے بندے تم سے میری ذات و صفات وغیرہ کے متعلق پوچھیں یا جب تم سے میرا پتہ مانگیں ۔اس ایک لفظ سے معلوم ہوا کہ نبی کریم ﷺ اللہ تعالیٰ کا پتہ بتانے والے ہیں ۔
اللہ کی ہر اک چیز کا سامان محمد (ﷺ)ہیں توحید کے مضمون کا عنوان محمد (ﷺ)ہیں
دیکھئے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین رب کاپتہ پوچھنے کہا ںگئے ۔حضور ﷺ کے پاس اور حضور ﷺ نے بھی یہ نہ فرمایا کہ جہاں تم رہتے ہو وہاں میں ۔مجھے کیا پتہ کہ رب کہاں ہے بلکہ اُس مولا کریم کا صحیح پتہ بتادیا ۔کیونکہ حضور ﷺ تو سارے عالم غیب کا پتہ بتادنے والے ہیں ۔
چنانچہ ایک عورت نے جس کا بیٹا فوت ہو چکا تھا عرض کرتی ہے یا رسول اللہ ﷺ! میرا بیٹا کہاں ہے ۔اگر جنت میں ہے تو خیر اور اگر دوزخ میں ہو تو خوب روﺅں ۔حضور ﷺ نے یہ نہ فرمایا کہ مجھے جنت دوزخ کی کیا خبر ۔میں مدینے میں وہ مقام یہاں سے کروڑوں میل دور، اور نہ یہ فرمایا کہ اچھا جبرائیل علیہ السلام سے پوچھ کر بتائیں گے ۔ بلکہ فوراً فرمایا کہ جنت کے آٹھ درجے ہیں ۔جن میں سب سے اونچا فردوس ہے ۔تیرا لڑکا فردوس میں ہے ۔
غزوہ¿ موتہ میں حضرت جعفر شہید ہوئے ۔مدینہ منورہ میں تشریف رکھتے ہوئے ۔حضور ﷺ نے ان کی شہادت کی خبر دی اور فرمایا کہ رب نے حضرت جعفر کو دو پر عطا فرمائے ہیں ۔جن سے وہ جنت میں اُڑتے پھر رہے ہیں ۔اس دن سے ان کا لقب حضرت جعفر طیار ہوا ۔ان واقعات سے پتہ لگا کہ دونوں جہان حضور ﷺ کی نظر میں ہیں۔
عنی ۔میں بہت سے احتما ل ہو سکتے ہیں مگریہاں قریب اور دور ہونا مراد ہے ۔جیسا کہ اگلی آیت سے معلوم ہو رہا ہے ۔یعنی اے محبوب ﷺ جب لوگ میرے متعلق آ پ سے پوچھیں ۔کہ ان سے دور ہوں یا نزدیک تو ۔فانی قریب۔تو فرماﺅ قریب ہے ۔
علماءکرام فرماتے ہیں کہ یہاں قل پوشیدہ ہے یعنی ان سے فرما دو کہ میں نزدیک ہی ہوں ۔مگر صوفیاءکے مشروب میں قل پوشیدہ ماننے کی ضرورت نہیں۔ ان کے ہاں ترجمہ آیت کا یہ ہے کہ جب میرے بندے آپ کے پاس آئیں اور میرے بارے میں پوچھیں اور مجھے آپ کے ذریعہ ڈھونڈیں تو میں ان سے قریب ہی ہوں اور اگر آپ سے دور ہیں تو خواہ مجھے مسجدوں میں ڈھونڈیں یا کعبے میں ان سے دور ہی ہوں ۔
عبادی۔فرما کر اس ہی جانب اشارہ کیا گیا ۔یعنی میری ہر قسم کی عبادت کرنے والے اور ہر طرح کے نیک بندے آپ سے پوچھ کر میرا پتہ لگا سکتے ہیں ۔کیوں نہ ہو کہ حضور ﷺ کی خدا کا دروازہ ہیں ۔مالک سے ملنا ہو تو اسکے دروازے پر ہی جایا جاتا ہے ۔
بخدا خدا کا یہی ہے در نہیں اور کوئی مفر مقر جو وہاں سے ہو یہیں آکے ہو جو یہاں نہیں تو وہاں نہیں
قریب۔قرب سے بنا ۔بمعنی نزدیکی ۔دور کا مقابلہ۔قرب کئی قسم کا ہوتا ہے ۔قرب مکانی ۔جیسے کہا جاتا ہے ۔علی پور چٹھہ وزیر آبادسے قریب ہے ۔ قرب زمانی جیسے جمعرات جمعہ سے قریب ہے ۔قرب جنانی دل کے قریب ہونا ۔جیسے کہا جاتا ہے کہ آج کل پاکستان سے کابل دور ہو گیا ۔یعنی پاکستان کے تعلقات کابل سے اچھے نہیں۔
قرب درجہ ،جیسے وزیر بادشاہ کے قریب ہے ۔یعنی مرتبے اور درجے میں اسکے قریب ہے اور قرب کرم و مہربانی ۔یہاں آخری قرب مراد ہے یعنی اللہ کا کرم ۔اللہ کی رحمت اسکی مہربانی ان بندوں سے قریب ہے ۔کیونکہ رب تعالیٰ مکانی اور زمانی قرب سے پاک ہے۔ اس لئے کہ وہ نہ کسی مکان میں ہے نہ زمانے میں ۔جب مکان اور زمان نہ تھا تب بھی وہ تھا اور جب یہ سب کچھ فنا ہو جائے گا تب بھی وہ رہے گا۔
اس آیت کریمہ کی تفسیر ہے : ”اللہ تعالیٰ کی رحمت نیک کاروں کے قریب ہے ۔“اس آیت نے بتا دیا کہ ان جیسی آیتوں میں قرب ربی سے مراد رحمت کا قرب ہے نہ مکانی نہ زمانی۔
خیال رہے کہ اللہ کا علم اس کی قدرت اُس کی رزاقیت ہر بندے سے قریب ہے اس کے متعلق ارشاد ہوا۔ ” تم جہاں بھی ہو وہ تمہارے ساتھ ہے ۔“ اور ارشاد ہوا۔ ”ہم بندے کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں مگر تم دیکھتے نہیں ۔“
یاد رہے کہ یوں تو اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں سے ہر وقت ہی قریب رہتا ہے ۔مگر چند وقتوں میں خصوصیت سے بہت قریب ہوتا ہے ۔ایک تہجد کے وقت ،جب بندہ اپنے گناہ اور اس کی رحمت کو یاد کر کے روتا ہے اور کہتا ہے کہ وہ کون سا گناہ ہے جو میں نے نہیں کیا اور وہ کون سا کرم ہے جو تو نے نہیں کیا ۔جس لائق میں تھا میں نے کر لیا اور جو تیری شان کے لائق ہے وہ تو کر ۔گناہ میں نے کر لئے بخش تو دے ۔درخت خاردار سے کانٹے ہی نکلتے ہیں اور درخت بار دار پھل ہی دیتا ہے ۔یہ آواز عرش کو ہلا دیتی ہے ۔
حدیث شریف میں ہے کہ نوافل کے ذریعے بندہ رب سے اتنا قریب ہو جاتا ہے کہ بندے کے اعضاءمیں ربانی طاقتیں کام کرتی ہیں ۔مبارک ہیں وہ بندے جو رب سے قریب ہیں اور سعید ہیں ،وہ ساعتیں جب میں بندہ رب سے قریب ہو ۔اس قرب کی دو نوعیتیں ہیں ۔ایک یہ کہ بندے کو محسوس ہونے لگا ہے کہ رب میرے ساتھ ہے اور مجھے دیکھ رہا ہے ۔اس تصور کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بندہ گناہ کرنے پر دلیری نہیں کرتا اور دنیا کا کوئی حال بندے کو رب سے غافل نہیں کرتا۔ یہ بہت بڑا مقام ہے ۔
دوسرا یہ کہ بندے کو ایسامعلوم ہوتا ہے کہ میں رب کو دیکھ رہا ہوں اس کا جمال میری آنکھوں کے سامنے ہے ۔اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بندے کی آنکھیں تر رہتی ہیں ۔دل میں سوز گداز رہتا ہے ، عبادتوں میں لذت آتی ہے ،یہ قرب پہلے سے بلند و بالا ہے ۔
حکایت:ایک شخص نے اپنی عمر کے اسی سال تقویٰ پرہیزگاری اور عبادتوں میں گزارے ،جب زندگی ختم ہونے کا وقت آیا تو شیطان نے اُسے بہکایا ،انسانی شکل میں اس کے پاس آکر کہنے لگا کہ تو ہر وقت کسے پکارتا ہے وہ بولا اپنے رب کو ۔ابلیس نے کہا کہ اس عرصے میں رب نے تجھے پکارا یا پکار کے جواب میں لبیک فرمایا وہ بولا نہیں ۔ شیطان بولا کہ تو بڑا پاگل ہے تو ایسے کو کیوں پکارتا ہے جو تجھے جواب نہیں دیتا ۔کسی کو دو چار بار خط لکھتے ہیں مگر اُدھر سے جواب نہ آئے تو خط بند کر دینے چاہئیں ۔عابد اس کے بہکانے میں آگیا۔ سارے ذکر اذکار چھوڑ دئےے ۔حتیٰ کہ ایک دن نماز عشاءبھی نہ پڑھی۔ رب نے اپنے فرشتوں سے پوچھا کہ فلاں بندے کی نیکیاں آنا بند کیوں ہو گئیں ۔ملائکہ نے عرض کیا ! شیطان نے اس کو بہکا دیا۔ عابد رات کو سویا ،خواب میں رب تعالیٰ کی زیارت نصیب ہوئی۔ پوچھا میرے بندے ! تو نے میری یاد کیوں چھوڑ دی ،اس نے عرض کیا کہ اے مولا! تجھے پکارتے پکارتے میری عمر گزر گئی ،مگر تیری طرف سے ایک بار بھی جواب میں لبیک نہ سنا۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے نا فرمان تیرا ہمیں یاد کرنا ہی ہماری لبیک ہے اور تیرے دل میں سوز و گداز ،درد کی کسک پیدا ہونا یہ ہمارا قاصد ہے ،جو تجھے ہماری بارگاہ میں حاضر کرتا ہے غرض کہ اس درجے میں کی ایسی جلوہ گری ہوتی ہے کہ سبحان اللہ۔
صوفیا فرماتے ہیں کہ اس آیت کریمہ میں اشار تاًفرمایا کہ مجھے ڈھونڈنا ہے تو اپنے میں ڈھونڈو کیونکہ میں تم سے قریب ہی رہتا ہوں ۔دیکھو میں تم ہی میں ملوں گا۔ جس نے رب کو اپنے میں نہ ڈھونڈا ادھر اُدھر ہی بھاگا پھرا وہ کامیاب نہیں ہو سکتا۔
اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے۔ یہ آیت کریمہ گویا ۔فانی قریب۔کی شرح ہے۔
کے معنے ہیں ”جواب دیتا ہوں میں“ دعوت کے معنےٰ پکارنا اور بلانا ہے۔
ترجمہ یہ ہوا کہ جب کوئی پکارنے والا مجھے پکارتا ہے یا بلاتا ہے میں فورا اُس کی پکار کے جواب میں لبیک فرماتا ہوں ۔اکیلے میں پکارتا ہے تو اس کا جواب اکیلے میں دیتا ہوں اور جماعت میں پکارتا ہے تو اس کا جواب بھی فرشتوں کی جماعت میں ہی دیتا ہوں ۔پھر جس نوعیت سے مجھے پکارتا ہے اسی نوعیت سے میں اسے جواب دیتا ہوں۔ بندہ کہتا ہے۔ یَا رَبِّ اے میرے پالنے والے ،میں جواب دیتا ہوں ۔یَا عَبَدِی±۔اے میرے پالے ہوئے ۔
اسکی شرح میں وہ حدیث قدسی ہے کہ رب تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب بندہ مجھے اپنے دل میں یاد کرتا ہے ۔میں بھی اسے نفس میں یاد کرتا ہوں اور جب بندہ مجھے جماعت میں یاد کرتا ہے تو ۔تو میں بندے کو اس سے بہتر جماعت میں یاد کرتا ہوں ۔مگر خیال رہے کہ اس صورت میں ۔الداع۔ میں ال عہدی ہو گا ۔اور پکار نیوالے سے وہ پکار نیوالا مراد ہو گا جو مومن ہو مخلص ہو اور حضور ﷺ کے واسطے سے پکارے ۔
ایک یہ کہ نماز روزے کی طرح رب کو پکارنا بھی عبادت ہے ۔اسی لئے سنت یہ ہے کہ ہر دعا سے پہلے رب کو پکارا جائے بعد میں عرض و معروض کی جائے ۔چنانچہ انبیاءکرام علیہم السلام دعا پیچھے کرتے تھے۔ کہہ کر رب کوپکار پہلے لیتے تھے ۔مگر رب کو پکارنے کا فائدہ یہاں بھی مل جاتا ہے ۔ کہ اس کی پکار کے جواب میں رب تعالیٰ بھی ہم سے خطاب فرماتا ہے یہ کیسی خوش نصیبی ہے کہ ہمارے معمولی پکارنے سے اس بارگاہِ عالی میں ہمارا ذکر آجائے ۔
حکایت :ایک بار حضور ﷺ نے ابی بن کعب سے فرمایا ۔اے ابی! مجھے قرآن پڑھ کر سناﺅ حضرت بی نے عرض کیا یا حبیب اللہﷺ! میری کیا مجال کہ حضور کو قرآن سناﺅں ،آپ خود صاحب قرآن ہیں آپ کو تو حضرت جبرائیل قرآن سناتے ہیں ۔حضور ﷺ نے فرمایا مجھے رب نے حکم دیا ہے کہ تم قرآن سنو حضرت ابی بولے ۔کہ رب نے میرا نام لیا ہے ۔فرمایا ہاں ۔حضرت ابی کو وجد آگیا اور آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے ۔اس فرمان پر بعض نافرمان نا سمجھ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ جب ہم رب تعالیٰ کا جواب سنتے ہی نہیں تو اسکے جواب دینے سے کیا فائدہ ۔اسکے دو جواب ہیں ایک عالمانہ اور ایک عاشقانہ ۔
جواب عالمانہ تو یہ ہے کہ بلا واسطہ رب کا کلام سننا ضروری نہیں ۔پیغمبر کا فرما دینا علمائے کرام کا مخلوق تک پہنچا دینا گویا ہمارا کلام الہٰی سن لینا ہی ہے ۔ بادشاہ ہر فرد و بشر سے کلام نہیں کیا کرتے بلکہ ان کی طرف سے گزٹ چھپ جاتے ہیں ۔خدا م ان کا کلام پہنچا دیتے ہیں ۔رب نے اپنی کتابوں میں اس کا اعلان کر دیا ۔ انبیاءکرام کے ذریعے ہم سے کہلوادیا یہ کافی ہے ۔
جواب عاشقانہ یہ ہے کہ آواز کان سے ہی نہیں سنی جاتی اور نہ ہر چیز آنکھ سے دیکھی جا تی ہے ہم خواب میں بہت سی آوازیں سن بھی لیتے ہیں اور بہت سی چیزیں دیکھ لیتے ہیں ۔حالانکہ اس وقت یہ آنکھ اور کان معطل ہو تے ہیں ۔
معلوم ہوا کہ اس دنیا میں دل کی آنکھیں او رکان کام کرتے ہیں ۔اس عالم کا نمونہ ہے واقعی رب تعالیٰ ہماری پکاروں کا جواب دیتا ہے اور وہ جواب ہم سنتے بھی ہے مگر دل کے کانوں سے ۔ اس وقت دل پر ایک خاص کیفیت طاری ہوتی ہے وہ کیفیت ہی اس آواز کا سننا ہے ۔اس جملے کی دوسری تفسیر یہ ہے کہ قبول کرتا ہوں دعا کرنیوالے کی دعا ۔جب وہ مجھ سے دعا کرتا ہے ۔اس سے معلوم ہوا کہ دعا مانگنا بھی بڑی بہترین عبادت ہے ۔دعا کے متعلق تین چیز یں قابل غور ہیں ۔دعا کے فضائل ،دعا کے مسائل ،دعا پر سوال جواب۔
فضائل دعا:دعا کے فضائل بے شمار ہیں ۔جن میں سے چندیہاں ذکر کئے جاتے ہیں :
1۔ دعا مانگنا سنت انبیاءکرام ہے کہ از حضرت آدم علیہ السلام تا حضور محمد مصطفےٰ ﷺ سارے نبیوں نے بہت سی دعائیں مانگیں ۔ جن پیغمبروں نے بعض اوقات دعا نہ مانگی اس میں خاص حکمت تھی وہ یہ کہ ان بزرگوں نے محسوس فرمالیا کہ یہ رب کی طرف سے ہمارا امتحان ہے ۔ایسا نہ ہو کہ اس وقت اس کے دفعیہ کی دعا مانگنے سے بے صبری میں شمار ہو جائےں۔
حکایت:حضرت ابراہیم علیہ السلام جب قید خانہ سے نکل کر نمرود کی آگ کی طرف چلے ۔رستے میں حضرت جبریل علیہ السلام ملے ،عرض کیا ۔اے اللہ کے خلیل کیا حال ہے ؟فرمایا الحمد للہ بہت اچھا ہے عرض کیا کچھ آپ کو حاجت ہے ۔فرمایا تم سے کچھ نہیں۔عرض کیا کچھ رب سے حاجت ہے ۔فرمایا:
خبیر کیا مجھے حاجت خبر کی ہے
اس طرح حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ذبح کرنے کا حکم ہوا تو اس کے دفعیہ کی دعا نہ کی ۔بلکہ فوراً ہی چھری لے کر تیار ہو گئے ۔ہمارے حضور ﷺ نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبر دی ۔تو اسکے دفعیہ کی دعا نہ کی ۔کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ،فاطمہ رضی اللہ عنہا خود حضور انور ﷺ نے یہ دعا مانگی ”الہٰی میرے حسین کو صبر اور اجر دے۔“
بچوں کو امتحان سے نہیں روکا کرتے بلکہ ان کے پاس ہونے کی دعائیں مانگتے ہیں ۔
غرضیکہ امتحان اور ہے اور اظہار بندگی کچھ اور ۔امتحان کے وقت دعا نہ کرنا بہتر اور اظہار بندگی کے وقت دعا مانگنا افضل ۔ مگر چونکہ ہم امتحان اور غیر امتحان میں فرق نہیں کر سکتے ۔اس لئے ہمیں ہر وقت ہی دعا مانگنی چاہےے ۔حضرت یعقوب علیہ السلام کا ملاقات یوسف علیہ السلام کی دعا نہ مانگنا ، حضرت یوسف علیہ السلام کا جیل سے رہا ہونے ،باپ سے ملنے ،وطن پہنچنے وغیرہ کی دعا نہ کرنا ۔اسی وجہ سے تھا وہ حضرات آنکھ والے ہیں امتحان اور غیر ا متحان میں فرق کر سکتے ہیں ۔
2۔ دعا مانگنے میں اظہار عبدیت ہے بندے کی شان ہی یہ ہے کہ ہاتھ اپنے مولا کے دروازے پر پھیلے رہیں ۔فرشتے جو معصوم ہوتے ہیں ۔جنہیں کھانے پینے بیماری وغیرہ کی کوئی حاجت نہیں وہ بھی دعائیں مانگتے ہیں ۔اپنے لئے نہیں بلکہ مومن انسانوں کی مغفرت کےلئے۔ بہت دعا مانگنے سے دل میں عجز و طبیعت میں اکسار پیدا ہوتا ہے اور عجز و انکساری ہی دریائے رحمت الہٰی کے جوش میں آنے کا سبب ہے ۔
4۔دعا مانگنے سے گناہوں سے مغفرت اور اطاعت الہٰی کی رغبت پیدا ہوتی ہے کیونکہ جب ہر وقت رب سے مانگنا ہو تو اسے راضی رکھنے کی کوشش بھی کی جائیگی۔
5۔رب غنی ہے اور ہم محتاج ،اسے ہماری پرواہ کیا ۔دعا ہی وہ چیز ہے جس سے وہ ہماری پرواہ بھی کرتاہے اور ہم پر کرم بھی فرماتا ہے:اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ۔
فرمادیجئے!محبوب اگر تمہاری دعائیں نہ ہوں ۔تو میرا رب تمہاری پرواہ کیا کرے ۔غرضیکہ جو بندہ چاہتا ہو کہ میں ہر وقت رب کی نظر کرم میں رہوں ۔ وہ ہمیشہ دعا مانگتا رہے ۔
دعا کے مسائل:دیگر عبادات کی طرح دعا کےلئے بھی کچھ وقت ہیں جن میں دعا زیادہ قبول ہوتی ہے ،کچھ جگہیں ہیں ،کچھ شرائط، کچھ آداب ،اگر انکی پابندی کی جائے تو انشاءاللہ وہ ضرور قبول ہو ںگی ۔رب نے وعدہ فرمایا ہے ”تم مجھ سے دعا مانگو میں قبول کروں گا۔“
اگر ہماری کوئی دعا قبول نہ ہو سمجھ لو کہ ہماری طرف سے کوئی کمی ہے ۔رب کا وعدہ سچا ہے ۔
میری رات کی دعائیں جو نہیں قبول ہوتیں میں سمجھ گیا یقینا ابھی مجھ میں کچھ کمی ہے
دعا کے اوقات:چند وقتوں میں دعا قبول ہوتی ہے ۔جمعے کے دو خطبوں کے درمیان خطبے اور نماز کے بیچ میں ۔آفتاب ڈوبتے وقت ،ماہ رمضان میں سحری اور افطاری کے وقت، شب قدر میں تمام رات، روزانہ اخیررات یعنی تہجد کے وقت ،ختم قرآن کے وقت آب زم زم پی کر ۔
دعا کی جگہیں :چند مقاما ت پر دعا ئیں زیادہ قبول ہوتی ہیں ۔ماں باپ کی قبر کے پاس ،کعبہ معظمہ میں رکن یمانی اور سنگ اسود کے درمیان ،تنعیم کے پاس ،حضور انور ﷺ کے روضہ¿ پاک پر ، بزرگان دین کے مزارات کے پاس ۔کیونکہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے فرمایا تھا۔ دمشق کے دروازے میں سجدہ کرتے جاﺅ اور وہاں سے جا کر دعا کرو بخش دینگے ۔وہاں کیوں بھیجا؟ اسلئے کہ وہاں مزارات انبیاءتھے ۔
امام شافعی رحمة اللہ علیہ کی قبر قبولیت دعا کے لئے تریاق ہے ۔زندہ اولیاءو علماءکی محفل پاک میں دعا بہت قبول ہوتی ہے ۔
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔ اسی جگہ جہاں حضرت مریم جنت کے میوے کھا رہی تھیں ۔ زکریا علیہ السلام نے اپنے رب سے دعا کی عرض کیا اے میرے مولا ! مجھے پاک اولاد عطا فرما ۔اس آیت کریمہ نے بتایا کہ زندہ اولیاءکے پاس رب سے دعا کرنا سنت انبیاءہے اس سے بھی زیادہ صریح یہ آیت ہے اور یہ عقل میں بھی آتی ہے کہ بزرگوں کے آستانے پر دعا زیادہ قبول ہونی چاہےے کیونکہ :رحمت الہٰی نہیں دیکھتی کہ آنے والا کیسا ہے بلکہ دیکھتی ہے کہ دروازے والا کیسا ہے ۔
دعا زیادہ کن کی قبول ہوتی ہے :چند شخصوں کی دعا زیادہ قبول ہوتی ہے :
1۔ اولاد کےلئے ماں باپ کی :ایک شخص حاضر بارگاہ شریف ہوا ۔عرض کیا یا حبیب اللہ ﷺمیرے لئے دعا فرمائیں ۔ فرمایا کیا تیرے ماں باپ زندہ ہیں ،عرض کی ہاں ،فرمایا جاان سے دعا کرا۔
2۔ نبی کی دعا:خیال رہے کہ دعا کرانا اور ہے اور دعا لینا کچھ اور ۔دعا لینا یہ ہے کہ کسی کی ایسی خدمت کی جائے جس سے اس کا دل خوش ہو جائے اور جوش میں آکر دل سے دعا نکل جائے یہ دعا بہدف ہو تی ہے کیا آپ نہیں جانتے کہ یعقوب علیہ السلام کے بیٹوں نے عرض کیا ”ابا جان ہمارے لئے بخشش کی دعا کرو۔ ہم بڑے خطا کار ہیں ۔“تو حضرت یعقوب علیہ السلام نے جواب دیا۔ اَس ابھی نہیں تمہارے لئے پھر کبھی دعا کروں گا۔ یعنی تم مجھ سے دعا کراﺅ مت بلکہ میری دعا لو ۔تم مجھے بچھڑے ہوئے یوسف علیہ السلام کے پاس پہنچاﺅ جب اُسے گلے لگالوں گا تو خود بخود ،میرا دل تمہیں دعائیں دے گا۔ غور کرو کہ منافقین نے حضورﷺ سے دعا کرائی اور حضور ﷺ نے ان کے لئے دعا بھی کردی مگر جواب آیا ۔ ”یعنی اے محبوب (ﷺ) ! اگر تم ان بے ایمانوں کے لئے ستر بار بھی دعا کرو ہم انہیں نہیں بخشیں گے ۔“(پارہ 10)
کیوں نہ بخشیں گے ؟ اس کی وجہ اللہ تعالیٰ خود بیان فرمارہا ہے۔ اے پیارے میں انہیں بخشوں کیسے ؟ یہ میرے منکر ہیں ۔ تیری شان کے منکر ، ہمیشہ تیرا دل جلاتے ہیں اور مسلمانوں کو دھوکہ دینے کے لئے دعا کرانے آجاتے ہیں ۔تم بھی انہیں دفع کرنے کے لئے دعاکے یہ کلمے فرما دیتے ہو ۔میں تمہارے دل کی کیفیت جانتا ہوں ۔میں انہیں ہر گز ہرگز نہ بخشوں گا ۔یہ حال تھا دعا کرنیوالوں کا ۔اب دعا لینے والوں کا حال بھی سن لو ۔
حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ نے ایک سفر میں دیکھا کہ حضور انور ﷺ اونٹنی پر سفر کر رہے ہیں مگر نیند کا غلبہ ہے ۔جھونکے آرہے ہیں خیال کیا کہ شاید حضور ﷺ کو تکلیف پہنچ جائے ۔حضور ﷺ کے ساتھ چل دئےے جب حضور ﷺ کو تیز جھونکا آتا تو حضرت طلحہٰ (رضی اللہ عنہ ) ہاتھ دے دیتے ۔رات بھر یہی خدمت کرتے رہے ۔آخر شب میں سرکار نے پوچھا کون ؟ عرض کیا حضور کا غلام طلحہ رضی اللہ عنہ فرمایا کیا ہے۔سارا ماجرا عرض کیا ۔فرمایا جنت تیرے واسطے واجب ہو گئی۔ یہ ہے دعا لینا ۔حضرت ربیعہ سے فرما یا کہ مجھ سے کچھ مانگ لے ۔ عرض کی کہ جنت میں آپ کاساتھ ہی مانگتا ہوں ۔
غرضیکہ دعا کرانے اور لینے میں بڑا فرق ہے ۔ہم جیسے گنہگاروں کو اگر کسی بزرگ سے دعا کرانے کا موقع مل جائے تو بھی غنیمت ہے مگر دعا لینے کی کوشش کرنی چاہےے ۔
اے مسلمانو! اگر تم اب بھی اپنے پیارے نبیﷺ کی دعا لینا چاہتے ہو تو انکی ساری سنتوں پر عمل کرو ۔خصوصاً تین چیزوں پر ۔ 1۔ لڑے ہوئے مسلمانوں کو ملانا ۔2۔ حضور ﷺ کے احکام اُمت تک پہنچانا ۔3۔نماز تہجد کی پابندی کرنا کہ نبی کریم ﷺ نے ان تین کے لئے فرمایا کہ ”نصر اللّٰہ “ اللہ انہیں بھرا رکھے ۔عادل بادشاہ کی دعا ، مظلوم کی دعا ،حدیث شریف میں ہے کہ مظلوم کی دعا کو اجابت الہٰی لبیک فرماتی ہے ۔
بیقرار کی دعا :اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ اگر خود بیقرار نہ ہو تو کسی بے قرار کی دعا لو ۔
حاجی کی دعا:جب گھر سے نکلے گھر آنے تک۔
اپنے شیخ طریقت کی دعا:اپنے دینی استاد کی دعا۔ معتکف کی دعا،پس پشت دعا کرنیوالے ۔
دعا مانگنے کا طریقہ:دعا کے آداب یہ ہےں کہ اپنی ہتھیلیاں تھوڑی فاصلے سے آسمان کی طرف پھیلائے ۔عام دعاﺅں میں سینے یا کندھوں تک ہاتھ اٹھائے ۔نماز استسقاءجبکہ بارش کی دعا مانگے تو سر سے اوپر اٹھائے کہ بغلوں کی سفیدی ظاہر ہو جائے ۔ طبیعت کو حاضر کرے ۔قبولیت کی اُمید رکھے ۔نا اُمید کی دعا قبول نہیں ہوتی پھر حمد الہٰی کرے پھر نبی کریم ﷺ پر درود بھیجے ۔پھر اپنے گناہوں کا اقرار کرے ۔پھر عرض حاجات کرے عرض حاجات میں خیال رکھے کہ صرف دنیا کی دعا نہ کرے بلکہ دین اور دنیا دونوں کی دعا مانگے کہ ایسا کرنا رب کو پسند ہے ۔
مناسب یہ کہ یوں دعا مانگے پھر باقی دعائیں مانگے ۔بہتر یہ ہے کہ دعا صرف اپنے واسطے نہ کرے بلکہ سارے مسلمانوں کےلئے بھی کرے۔
اس جملے پر عشاق وجد کرتے ہیں ۔نہایت ناز والا پیارا کلام ہے رب تعالیٰ مالک الملک ہو کر ہم بندوں سے فرما رہا ہے کہ میں تمہاری دعا قبول کرتا ہوں ۔تم بھی قبول کرو۔ مجھ سے ہی منوانے کی کوشش نہ کرو ۔کچھ ماننے والی بات بھی کرو ایک جگہ فرماتا ہے۔ ”تم مجھے یاد کرو میں تمہیں یاد کروں گا۔“ ان دونوں باتوں پر اہل دل لوٹ جاتے ہیں۔ اس جملے کے ما تحت علمائے کرام تو یہ فرماتے ہیں کہ دعا کی قبولیت کی شرط تقویٰ اور رب کی اطاعت بھی ہے ۔جو یہ چاہتا ہے رب مانا کرے اور میری دعا قبول ہوا کرے تو اسے چاہےے کہ وہ رب کی مانا کرے اور اسکی اطاعت کیا کرے ۔
حکایت:کسی بزرگ کے پاس ایک شخص نے دعائیں قبول نہ ہونے کی شکایت کی کہ رب نے وعدہ تو قبولیت کا کیا تھا مگر قبول کرتا نہیں اور اس نے یہی آیت پڑھی کہ :شیخ نے فرمایا کہ تم اس کی نہیں مانتے وہ تمہاری نہیں مانتا۔ پڑھوا گر اپنی منوانی ہے تو اس کی مانو،اس کی تفسیر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زندگی پاک کہ رب نے انہیں بہت سخت احکام دئےے ۔اپنے آپ کو نمرود کی آگ میں ڈالو ۔اپنے بال بچوں کو بے آب و گیاہ میدان میں چھوڑ آﺅ ۔اپنے اکلوتے بیٹے کو ذبح کرو وغیرہ ۔ حضرت خلیل اللہ نے ان احکام کی وجہ بھی نہ پوچھی ۔بے دھڑک سب کام کر گزرے ۔اب اپنی باری بھی آئی عرض کیا کہ اے مولا! جس جنگل میں میرے بال بچے رہے اسے بسا دے۔امن و الا شہر بنا دے ۔جہاں پیداوار بالکل نہ ہے ۔یہاں کے باشندے بھوک سے نہ مریں ۔ہر طرح کے پھل مزے سے کھایا کریں ،نبی آخر الزماں ﷺ اس شہر میں میر ی نسل سے پیدا ہوں ۔ دنیا میں میرا ذکر خیر رہے ۔رب نے انکی ساری مان لیں ۔انکار تو کیا کسی دعا کی وجہ بھی نہ پوچھی یہ ہے اس آیت کریمہ کی تفسیر ۔
صوفیاءفرماتے ہیں کہ ہماری دنیاوی زندگی چند روز کی ہے۔چاہے کہ ہم یہاں رب کی مانیں ۔اگر اس پر ہم نے عمل کرلیا تو اخروی زندگی جوآبادآباد تک کی ہے اس میں رب ہماری مانے گا۔فرماتا ہے تو اس کی بندہ نوازی ہے کہ وہ بھی ہماری کچھ مان لیتا ہے اور حق تو یہ ہے کہ ہمارا اس پر دعویٰ ہی کیا ہے۔ سبحان اللہ کیسے نفیس طریقے سے ہمیں سمجھایا گیا ہے کہ مجھ پر اعتماد رکھو کہ میں رب ہوں تم بندے ہوا گر کبھی تمہاری دعا قبول نہ کروں تو مجھ پر اعتراض نہ کرنا ۔ بلکہ یہ سمجھنا کہ تم اپنی نادانی سے مجھ سے وہ مانگ رہے ہو جو تمہارے لئے مضر ہے ۔میں اپنی کرم نوازی سے تمہیں نہیں دیتا۔
شیخ سعدی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں :باپ کے پاس شہد تو بہت ہے اور ناداں بیٹا شہد کےلئے ضد بھی کر رہا ہے ۔مگر باپ جانتا ہے کہ میرے بیٹے کا مزاج گرم ہے اسے شہد نقصان دے گا۔
صوفیاءفرماتے ہیں کہ قبولیت دعا کی تین صورتیں ہے ۔ ایک یہ کہ بندہ جو مانگے رب وہی دے دے ،دوسری یہ کہ رب تعالیٰ وہ تو نہ دے مگر اس دعا کی برکت سے کوئی اور نعمت بخش دے یا کسی آفت سے بچالے ۔
تیسری یہ کہ بندے کی اس دعا کو آخرت کے لئے ذخیرہ بنالے ۔اسکی برکت سے اسکے درجے اونچے کرے ۔خیال رہے کہ یہاں ہمارے ساتھ شیطان بھی ہے اور نفس امارہ بھی ،اس لئے ہم رب سے بسا اوقات بری چیزیں بھی مانگ لیتے ہیں مگر مرنے کے بعد نفس اور شیطان ہم سے جدا ہو جائےں گے ۔ وہاں صرف روح اور قلب ہی رہیں گے ۔ہم وہاں اچھی چیزیں ہی مانگیں گے ۔اس لئے وہاں رب تعالیٰ ہماری ہر دعا قبول کریگا ۔اور یہاں ہر دعا قبول نہیں فرماتا ۔اب پڑھو ۔والیومنوبی۔مجھ پر اعتماد تو رکھو یا یہ مطلب ہے کہ میرا حکم مانو اور میرے ہر نرم و گرم حکم پر سر جھکادو ۔وجہ تمہاری سمجھ میں آئے یا نہ آئے ۔ جب تم طبیب کا نسخہ بغیر جرح کے استعمال کرلیتے ہو ۔انگریزی دوائیں بغیر اسکے اجزاءمعلوم کئے کھا لیتے ہو ، کیونکہ تمہارا اعتقاد یہ ہے طبیب حکیم بھی ہے اور مہربان بھی اور ولایت کے دو اساز بڑے قابل اور لائق ہیں تو کیا میری ربوبیت پر اتنا بھی اعتقاد نہیں ۔لہٰذا میرے احکام پر جرح نہ کرو بلکہ مجھ پر اعتقاد و اعتماد رکھو ”تاکہ وہ ہدایت پا جائیں ۔“
ہدایت اور رشد دونوں قریب المعنیٰ ہیں ۔مگر اکثر ہدایت عام ہوتی ہے اور رشد خاص ۔یعنی ظاہری باطنی ہر قسم کی رہبری کوہدایت کہتے ہیں اور باطنی ہدایت کو رشد مطلب یہ ہوا کہ جن لوگوں میں تین چیزیں جمع ہوں گی ،وہ روحانی ایمانی قلبی ہدایت پر ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ اپنے حبیب ﷺ کے صدقے سے ان تینوں چیزوں پر عمل کی توفیق عطا فرما ۔ہم اسکی درگاہ میں دعائیں مانگا کریں اور ہمیشہ اسکی فرمانبرداری کریں اور اسکے احکام کو بجالائیں۔آمین ۔
علامہ پیر محمد تبسم بشیر اویسی
سجادہ نشین مرکز اویسیاں نارووال پنجاب پاکستان