جب بھی اپنے وطن جانا ہوتا ہے پہلے پہلے یہ جان کر بڑی خوشی ہوتی رہی کہ ہر لڑکا لڑکی نوے نوے فیصد نمبرز لیکر امتحانات میں کامیاب ہو رہا ہے. کئی تو اس سے بھی چار قدم آگے سو سو فیصد تک نمبرز کیساتھ ریکارڈ پر ریکارڈ پھیتی پھیتی (ٹکڑے ٹکڑے ) کر رہے ہیں .
لیکن جب ایسے کچھ بچوں سے ملنے اور کئی بار بڑی بڑی ڈگریاں اعلی نمبرز کیساتھ اپنے نام کروانے والوں سے بات ہوئی تو حیرت ہوئی کہ واقعی یہ لڑکا یا لڑکی فل نمبرز لیکر پاس ہو چکے ہیں . …
جن نوجوانوں کو جہانگیر کا مقبرہ ، اقبال اور قائد کے مزارات تک کا علم نہ ہو ……کہ کہاں واقع ہیں ؟
پانی کن دو عناصر سے مل کر بنتا ہے ؟
پاکستان کے کس صوبے میں کون کون سی زبانیں بولی جاتی ہیں ؟
یا لیموں میں کون سا وٹامن وافر پایا جاتا ہے ؟
جیسے سوالات تک کے جوابات کا علم نہ ہو ان کے فریم میں چاہے پی ایچ ڈی کی ڈگری ہی لگا دی جائے . کیا فرق پڑتا ہے ان کی حیثیت اس گدھے جیسی ہی رہیگی جس پر جتنی مرضی کتابیں لاد دی جائیں وہ عالم تو نہیں بن جائے گا رہیگا تو گدھا ہی ..ابھی بورڈ اور انٹرمیڈیٹ کے امتحانات کا جنازہ بھی سارے جوانوں نے کیا ہی دھوم سے اٹھایا ہے .
امتحان کا کیا مطلب ہوتا ہے یہ ہی کہ آو دیکھیں ہم نے سارا سال پچیس کلو کتابیں ڈھو ڈھو کر اسے کبھی کھول کر بھی پڑھا ہے .. اگر پڑھا ہے تو دیکھیں اس میں لکھا کتنا ہمیں یاد رہا اور کتنا ہمیں سمجھ آیا اسے جانچیں.
اپنے علم کو پرکھیں …
اگر سارا سال اپنی آنکھیں اور اپنا دماغ فضول کاموں ہی میں گزارنا ہے . اور ماں باپ کو اس بات سے کوئی غرض ہے نہ خبر کہ ان کا لاڈلا یا لاڈلی کہاں کہاں ٹائم پاس کر رہا ہے تو کتنا ہی اچھا ہو کہ امتحانات میں ایسے نالائق گدھوں کو پاس کروانے کے لیئے کبھی بوٹی مافیا اور کبھی نقل فروشوں کو ہزاروں بلکہ کئی جگہ تو لاکھوں روپے ادا کر نے کے بجائے انہیں امتحانات میں نہ ہی بٹھایا جائے . تاکہ جس بچے نے جی جان سے محنت کی ہے دن رات اپنا وقت اپنی پڑھائی پر صرف کیا ہے اس کی حق تلفی سے دنیا کے گناہ اور آخرت کے عذاب سے تو بچ سکیں .
کیا فائدہ آپ کی اولاد کی ایسی ڈگری کا جس کی بنیاد پر وہ ڈھنگ کے دو واضح جملے نہیں لکھ سکتا ..کسی بحث میں کوئی دلیل نہیں دے سکتا . کوئی کام سمجھنے کے لیئے اپنا دماغ استعمال نہیں کر سکتا .
ایسا انسان کسی شعبے میں کوئی بڑی کامیابی اپنے بل ہر حاصل ہی نہیں کر سکتا وہ ہمیشہ شارٹ کٹ اور چور راستے ہی ڈھونڈتا رہتا ہے . کیونکہ اس کے سر میں دماغ کے بجائے بھوسا بھرا ہے اور یہ کام کرنے کے لیئے سر میں دماغ کا ہونا ضروری ہے.
ایسے نوجوانوں کو جعلی ڈگریاں دلوانے اور کسے حقدار کا حق مارنے سے کہیں اچھا ہے کہ انہیں ٹیکنیکل ایجوکیشن میں ڈال دیا جائے . تاکہ ان کا وقت اور ان کے ماں باپ کے گاڑھے پسینے کی کمائی کسی کام تو آ سکے .
آجکل کے عام نقل کے کلچر اور ماں باپ کی ایسی نالائق اولاد کی پشت پناہی نے آج نوجوانوں کی ایک بوگس نسل تیارکر کے ہمارے سامنے کھڑی کر دی ہے . جنہیں نہ ماں باپ سے بات کرنے کی تمیز ہے اور نہ استاد کی عزت کرنے کی خبر . کوئی بڑا چھوٹا ان کے لیئے کوئی وقعت نہیں رکھتا کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ زندگی کے ہر پرچے کا.چور راستہ اور شارٹ کٹ ان کے باپ کی جیب سے ہو کر گزرتے ہیں ..
یہ تحریر ان باضمیر بچوں کی چیخ ہے جو دن رات محنت کر کے جائز طریقوں سے امتحان دیتے ہیں تب بھی پیپر چیکرز سے دو میں سے ساٹھ نمبر حاصل کرپاتے ہیں جبکہ انہیں کی کلاس کے نالائق لوفر اور آوارہ لڑکے لڑکیاں بنا پڑھے ہی سو میں سے نوے نمبرز لیکر انکی قابلیت کو ٹھوکر پر رکھ کر آگے نکل جاتے ہیں .
پھر وہ جہاں نوکریوں کے لیئے بھی جاتے ہیں تو یہ ہی دو نمبر پہاڑ ان کے راستے کی رکاوٹ بنکر ان کی مستقبل پر کالک مل دیتے ہیں . اپنے بچوں کی حوصلہ افزائی ضرور کیجیئے لیکن ان کاموں میں جس کا وصف ان میں موجود ہے .
اس کام میں نہیں جس میں اس کی عقل کسی طور چلنے کو تیار نہیں . کیونکہ اس صورت میں حقدار بچوں کے گناہگار آپ اپنے بچوں سے کہیں زیادہ ہیں.
ممتاز ملک. پیرس