سپریم کورٹ نے عمران خان سے پیسہ لندن سے پاکستان بھجوانے، سابق اہلیہ جمائمہ کو قرض ادا کرنے سے متعلق منی ٹریل طلب کر لی، جسٹس عمر عطاء بندیال نے ریمارکس دئیے کہ عدالت نے ممنوعہ ذرائع سے فنڈز لینے کے معاملے پر فیصلہ دیا تو اس کا نتیجہ سیاسی جماعت پر پابندی کی صورت میں نکلے گا۔
اسلام آباد: سپریم کورٹ میں عمران خان اور جہانگیر ترین کی آف شور کمپنیوں سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔ عمران خان سے پیسہ لندن سے پاکستان بھجوانے اور سابق اہلیہ جمائمہ کو قرض ادا کرنے کی منی ٹریل طلب کر لی گئی۔ سماعت کے دوران حنیف عباسی کے وکیل اکرم شیخ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پانامہ کا مقدمہ ملک کے وزیر اعظم جبکہ یہ مقدمہ آئندہ کے وزیر اعظم کا ہے۔ اس پر جسٹس عمر عطاء بندیال بولے، کیا آپ تسلیم کرتے ہیں کہ عمران خآن آئندہ کے وزیر اعظم ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کیا وزیر اعظم کے خلاف مقدمہ عام رکن اسمبلی کے خلاف مقدمے کے برابر ہو سکتا ہے؟ اراکین اسمبلی کے خلاف درخواستوں کی اجازت دینے سے نیا دروازہ کھل جائے گا، وکیل نعیم بخاری نے کہا کہ تمام الزامات پر عمران خان کا مفصل بیان حلفی جمع کرایا جائے گا اور ٹرانزیکشن کا بنک ریکارڈ بھی پیش کریں گے۔ اکرم شیخ نے دلائل میں کہا کہ عمران خان نے 2002ء کے کاغذات نامزدگی میں جمائمہ خان کے نام بنی گالہ کی اراضی کا ذکر کیا، نہ ہی جمائمہ سے قرض لینے کا، غلط بیانی جب بھی ثابت ہو نااہلی ہو سکتی ہے؟
اکرم شیخ نے کہا کہ عمران خان نے قومی اسمبلی کے فلور پر کہا کہ لندن فلیٹ کا پیسہ پاکستان لیکر آئے، عدالتی بیان میں کہا کہ فلیٹ کی رقم سے لندن میں جمائمہ کو قرض کی رقم ادا کی، کپتان کے کس مؤقف کو درست تسلیم کیا جائے؟ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پانامہ فیصلے میں ججز کی اکثریت نے جے ائی ٹی، اقلیت نے وزیر اعظم کو نااہل قرار دیا، کیا آپ چاہتے ہیں کہ اقلیت ججز کی رائے پر عمران خان کو نااہل قرار دے دیں، اکرم شیخ نے کہا فیصلہ وہی ہوتا ہے جو اکثریت کا ہو۔
جسٹس عمر عطاء بندیال نے ریمارکس میں کہا کہ عدالت نے ممنوعہ ذرائع سے فنڈز لینے کے معاملہ پر فیصلہ دیا تو اس کا نتیجہ سیاسی جماعت پر پابندی کی صورت میں نکلے گا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ جب تک اس بات کا تعین نہ ہو کہ پارٹی فنڈز ممنوعہ ذرائع سے لئے گئے یا نہیں، اس وقت تک عمران خان کے پارٹی فنڈز سے متعلق سرٹیفکیٹ کو جعلی نہیں کہہ سکتے۔