نئی دہلی: بھارتی حکومت نے 10 نئے ایٹمی بجلی گھر تعمیر کرنے کی منظوری دے دی ہے جن کی مجموعی پیداواری صلاحیت تقریباً 7000 میگاواٹ ہوگی لیکن کوئی نہیں جانتا کہ یہ ایٹمی بجلی گھر کب اور کہاں بنائے جائیں گے۔
ہندوستان کے وزیر برائے توانائی پیوش گوئل کا کہنا ہے کہ ان منصوبوں سے بھارت میں 70,000 کروڑ روپے کے کاروباری مواقع پیدا ہوں گے جبکہ 33 ہزار نئی ملازمتیں وجود میں آئیں گی۔ مجوزہ تمام ایٹمی بجلی گھر ’’پریشرائزڈ ہیوی واٹر ری ایکٹرز‘‘ (پی ایچ ڈبلیو آر) قسم کے ہوں گے اور اس طرح کے ایٹمی ری ایکٹروں میں شدید دباؤ پر رکھے گئے ’’بھاری پانی‘‘ کو بطور ماڈریٹر استعمال کیا جاتا ہے۔
ان ایٹمی بجلی گھروں پر کب کام شروع ہوگا، یہ کن علاقوں میں تعمیر کیے جائیں گے اور یہ کب مکمل ہوں گے، اس بارے میں پیوش گوئل نے میڈیا کو کچھ نہیں بتایا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ شاید اس اعلان کا مقصد صرف میڈیا کی توجہ حاصل کرنا ہے۔ ایٹمی بجلی گھر بنانے کا یہ اعلان اس وجہ سے بھی مودی سرکار کی پروپیگنڈا مہم کا حصہ لگتا ہے کیونکہ اس وقت بھارت اپنی توانائی کا صرف 2 فیصد حصہ 22 ایٹمی بجلی گھروں سے حاصل کررہا ہے جو مجموعی طور پر 6 ہزار 780 میگاواٹ بجلی بنارہے ہیں جبکہ مزید 6 ہزار 700 میگاواٹ کی پیداواری صلاحیتوں والے ایٹمی بجلی گھروں کے منصوبوں پر کام جاری ہے۔
غیر ملکی اداروں سے مذاکرات میں ناکامی کے بعد بھارتی حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ اب وہ اپنے مقامی ایٹمی بجلی گھروں کے پروگرام کو تیزی سے آگے بڑھائے گی اور 2032 تک ایٹمی بجلی گھروں سے 633 ہزار میگاواٹ بجلی بنائی جائے گی۔ علاوہ ازیں 2050 تک بھارت کا ہدف اپنی توانائی کی 25 فیصد ضروریات ایٹمی بجلی گھروں سے پوری کرنے کا بھی ہے۔ بڑے پیمانے پر بجلی بنانے کےلیے کوئلہ جلا کر آلودگی پھیلانے والے سینکڑوں بجلی گھر آج تک بھارت میں بجلی کی ضرورت کا سب سے بڑا حصہ پورا کررہے ہیں لیکن اندرونی اور بیرونی تنقید کی بناء پر بھارتی حکومت قابلِ تجدید توانائی کو تیزی سے فروغ دینے پر مجبور ہے۔