حیدرآباد: آئی جی سندھ پولیس اے ڈی خواجہ کا کہنا ہے کہ انھوں نے اپنا کام ہمیشہ پیشہ ورانہ انداز میں کیا اس لیے وہ موجودہ صورتحال سے مایوس نہیں ہوئے ہیں۔
آئی جی سندھ نے کہا کہ سندھ حکومت سے ان کا کوئی اختلاف نہیں ہے، یہ حکومت سندھ سے پوچھا جائے کہ وہ کس پالیسی پر گامزن ہے، سندھ حکومت نے عدالت میں لکھ کر دیا ہے کہ اے ڈی خواجہ میں کام کرنے کی صلاحیت نہیں ، اس عمل سے اخلاقی طور پر کام کرنے میں مشکل ہوجاتی ہے، سندھ حکومت نے مجھے کوئی ہدف نہیں دیا تھا، پولیس نظام میں بہتری کیلیے جو ٹارگٹ لیکر آگے بڑھا اس میں 80 فیصد کامیابی ہوگئی ہے، انہوں نے کہا کہ سندھ پولیس کی تاریخ میں پہلی مرتبہ میرٹ پر بھرتیاں کیں اور نوجوانوں کو میرٹ کا راستہ دکھایا، بھرتی ہونے والے اہلکاروں کی پاک فوج سے تربیت مکمل کروائی جبکہ پولیس کے تفتیشی نظام کو بہتر کرنے کے ساتھ ساتھ پولیس ویلفیئر کیلیے بھی اہم اقدام اٹھا کر ایک تاریخ رقم کردی ہے اور اب لوگ خود فیصلہ کریں گے۔
اے ڈی خواجہ نے واضح کیا کہ وہ کبھی مایوس نہیں ہوتے، اپنی زندگی کے ہر موڑ پر خطروں سے کھیلا ہے، عدالت کے فیصلے کے بعد پولیس نظام میں مزید بہتری آئے گی، سندھ میں امن و امان کے قیام میں صرف پولیس نہیں بلکہ تمام ہی سیکیورٹی اداروں نے بھرپور کردار ادا کیا اور نقصان بھی بہت اٹھایا جس پر سب کو سلام پیش کرتا ہو۔
آئی جی سندھ نے طالبات کو مشورہ دیا کہ وہ سوشل میڈیا استعمال کرنے میں احتیاط سے کام لیں اور اپنے والدین، بہن بھائیوں کو دوست بناکر ان سے باتیں شیئر کریں اور صرف ان ہی سائٹ کا وزٹ کریں اور کمنٹس دیں جو اپنے والدین کو دکھا سکیں، موجودہ دور میں سوشل میڈیا کی اہمیت بڑھ گئی ہے لیکن سوشل میڈیا کا زیادہ استعمال ذہنی طور پر مفلوج بھی کردیتا ہے، لیاقت میڈیکل یونیورسٹی کی طالبہ نورین لغاری بھی سوشل میڈیا کے بہکاوے میں آکر دہشت گردوں کے پاس گئی جس سے صوبے اور ہمارے کلچر کو شدید دھچکا پہنچا ہے۔
اے ڈی خواجہ نے خطاب میں کہا کہ کامیابی کے سفر کا کوئی شارٹ کٹ نہیں ہوتا اور تعلیم پر کوئی سمجھوتہ نہ کیا جائے،اگر نوجوانوں نے درست تعلیم حاصل نہ کی تو ہماری آئندہ نسلیں متاثر ہونگی، طالبعلم تعلیم کے ساتھ ساتھ اپنے کردار اور تربیت پر بھی خصوصی توجہ دیں۔ علاوہ ازیں اس موقع پر سابق ڈی جی ہیلتھ سندھ ڈاکٹر ہادی بخش جتوئی اور اسکول کے پرنسپل پروفیسر اختر علی قریشی نے بھی خطاب کیا۔ تقریب میں ڈی آئی جی حیدرآباد خادم حسین رند، ایس ایس پی حیدرآباد عرفان علی بلوچ بھی موجود تھے۔