اسپیکر ایاز صادق کی سربراہی میں ہونے والے اجلاس میں اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اسپیکر بتائیں کہ کیا جمشید دستی کی گرفتاری کی اجازت لی گئی، گزشتہ روز خورشید شاہ پر حملہ کرنے والے شخص کا بعد میں پاس بنایا گیا، متعلقہ شخص نے جو پاس دکھایا وہ ڈپٹی اسپیکر نے جاری کیا جس کی وہ وضاحت کریں اور حملہ کرنے والے شخص کو تھوڑی دیر بعد ہی رہا کر دیا گیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ پیپلز پارٹی کے دور میں ارکان کو مسائل حل کرنے کے لئے وزیراعظم کے پاس لے جاتا تھا۔
خورشید شاہ نے کہا کہ محموداچکزئی ہمیشہ بھاشن دیتے ہیں کہ ہم منتخب نمائندے ہیں جبکہ کچھ لوگوں کی تصاویر جنرل ضیاء الحق کے ساتھ بھی دیکھی گئی تھیں۔ خورشید شاہ کے اس بیان پر عابد شیر علی کھڑے ہو گئے اور شیم شیم کے نعرے لگانا شروع کر دیئے جبکہ دیگر حکومتی اراکین نے بھی شور شرابہ شروع کر دیا۔ عابد شیر علی کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے اپوزیشن لیڈر نے کہا کہ میں ان کی طاقت اور بڑھکوں کو جانتا ہوں، نواز شریف نے قدم بڑھا کر پیچھے دیکھا تو ان میں سے کوئی بھی نہیں تھا۔ ایوان میں ہنگامہ پربا ہونے پر اسپیکر نے وزیر پارلیمانی امور شیخ آفتاب سے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ مجھے سارجنٹ کو بلانا پڑے گا جس پر شیخ آفتاب نے حکومتی ارکان کو بٹھانے کی کوشش کی۔ اسپیکر قومی اسمبلی نے عابد شیر علی کے دھمکی آمیز انداز گفتگو پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا اور ماحول میں تلخی پر ایوان کی کارروائی 15 منٹ کے لئے ملتوی کر کے اپوزیشن لیڈر اور وفاقی وزراء کو اپنے چیمبر میں بلا لیا۔