اسلام آباد(ایس ایم حسنین) عالمی سطح پر نظام زندگی کو مکمل طورپر مفلوج کردینے والی کورونا وبا کے پاکستان میں پہلے کیس کے ظاہر ہونے کو ایک سال مکمل ہوچکا ہے، 26 فروری 2020 کی شام ذرائع ابلاغ میں کرونا وبا کے پہلے کیس کی تصدیق ہوئی جس کے بعد اس بیماری نے ایک سال کے دوران کیا تباہی مچائی وہ سب کے سامنے ہے۔غیرملکی نشریاتی ادارے کے مطابق ایران سے لوٹنے والے ایک نوجوان یحییٰ جعفری جب کراچی کے جناح انٹرنیشنل ایئر پورٹ پر پہنچے تو اُن میں کرونا کی کچھ علامات ظاہر ہوئیں جن کا ٹیسٹ 26 فروری کو مثبت آیا اور یوں پاکستان دنیا کے اُن ممالک کی فہرست میں شامل ہو گیا جہاں اس بیماری نے اپنے پنجے گاڑھ دیے۔ پہلا کیس رپورٹ ہونے کے بعد کچھ خاموشی رہی، لیکن مارچ کے وسط میں کیسز بڑھنے لگے اور پھر حکومتِ پاکستان نے بھی لاک ڈاؤن کا فیصلہ کیا۔ مارچ میں شروع ہونے والے لاک ڈاؤن سے زندگی ساکت ہو گئی۔ کاروباری مراکز اور تعلیمی ادارے بند ہو گئے اور لوگوں کو گھروں میں رہنے کا کہا گیا جب کہ حکومت اس وبا کا پھیلاؤ روکنے کے جتن کرنے لگی۔ مارچ اور اپریل کے مہینے میں وبا نے زیادہ نقصان نہیں پہنچایا، لیکن جیسے ہی مئی اور جون میں وبا کی پہلی لہر کی تباہ کاریاں شروع ہو گئیں۔ اسپتال مریضوں سے بھرنے لگے۔ اموات کی تعداد بھی زیادہ ہونے لگی۔ جون اور جولائی میں بھی یہی صورتِ حال رہی۔ مختلف جگہوں پر لوگوں کو الگ تھلگ رکھنے کے لیے قرنطینہ مراکز قائم کیے گئے۔ پاکستان نے شدید بیمار ہونے والے مریضوں کی زندگی بچانے کے لیے وینٹی لیٹرز کے حصول کی تگ و دو بھی شروع کر دی۔ اس وبا کے ابتدائی دنوں میں پاکستان کو کرونا سے نمٹنے کے لیے بیشتر اشیا درآمد کرنی پڑیں۔ تاہم ایک سال بعد پاکستان ماسک، سینیٹائزر، پی پی ایز، گلوز سمیت وینٹی لیٹر بنانے میں بھی خود کفیل ہو گیا ہے۔ ٹیکنالوجی کا بھر پور استعمال کر کے اسکولوں اور کالجوں کے لیے مختلف ایپس متعارف کرائی گئیں جس کے ذریعے آن لائن کلاسز آج بھی جاری ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ کئی سرکاری اور نجی دفاتر نے لوگوں کو گھروں سے کام کرنے کی اجازت دی۔ ملک میں اس وقت کرونا وبا سے متاثرہ افراد کی مجموعی تعداد پانچ لاکھ 77 ہزار سے زائد ہے جب کہ اس مہلک وائرس سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد 12 ہزار 800 سے زائد ہے۔ جمعے کے اعداد و شمار کے مطابق حکومت کی جانب سے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق سب سے زیادہ ہلاکتیں صوبہ پنجاب میں ہوئیں جن کی تعداد پانچ ہزار 323 ہے۔ صوبہ سندھ میں چار ہزار 333، صوبہ خیبر پختونخوا میں 2065، پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں 296، صوبہ بلوچستان میں 200، وفاقی دارالحکومت میں 496 جب کہ گلگت بلتستان میں اب تک 102 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ پاکستان میں محدود پیمانے پر کرونا ویکسین لگانے کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ حکام کی جانب سے ماسک اور سینیٹائزز کے استعمال اور مناسب سماجی فاصلہ رکھنے کی تلقین کے باوجود بہت کم تعداد میں شہری احتیاطی تدابیر پر عمل پیرا ہیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ ایسا نہیں ہے کہ ویکسین آنے کے بعد سب کچھ فورا ٹھیک ہو جائے گا بلکہ ویکسین لگانے کے بعد بھی احتیاطی تدابیر پر عمل کرنا ہو گا۔
محمد عاصم خان، صوبہ خیبر پختونخوا کے سب سے بڑے سرکاری اسپتال، لیڈی ریڈنگ میں بطور ترجمان فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ شروع کے دنوں میں پشاور میں ہلاکتوں کی شرح بہت زیادہ تھی جس کی سب سے بنیادی وجہ شہریوں کی بے احتیاطی تھی۔
غیرملکی نشریاتی ادارے کے مطابق سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ جہاں ایک طرف اسپتال میں لوگ کرونا وبا کی وجہ سے ہلاک ہو رہے تھے تو دوسری جانب لوگ اس بیماری کی حقیقت پر سوال اُٹھا رہے تھے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ یہی وجہ تھی کہ لیڈی ریڈنگ اسپتال کا 500 سے زائد طبی عملہ متاثر ہوا جس کے بعد گائنی وارڈ کو مکمل طور پر بند کر دیا گیا۔ عاصم خان کا مزید کہنا تھا کہ اب حالات قدرے بہتر ہیں۔ تاہم شہریوں کی جانب سے ایس او پیز پر کم عمل درآمد اب بھی بہت زیادہ چیلنجز کا باعث بن رہا ہے۔ لیڈی ریڈنگ اسپتال پشاور میں کرونا وبا کے سب سے پہلے مریض کو ہیڈ نرس نبیلہ ناز نے ریسیو کیا۔
انہوں نے بتایا کہ شروع کے دنوں میں بہت زیادہ خوف تھا۔ کیوں کہ یہ ایک نئی بیماری تھی اور کسی کو اسے ہینڈل کرنے کا کوئی خاص تجربہ نہیں تھا۔ اسی لیے فرنٹ لائن ورکر کی حیثیت سے انہوں نے اپنے تمام اسٹاف کو خصوصی ہدایات کی تھیں کہ ان مریضوں کا بھی دوسرے مریضوں کی طرح خیال رکھا جائے۔ نبیلہ ناز کے مطابق اگرچہ اسپتال اسٹاف کو احتیاطی تدابیر کی کٹس جلد فراہم کر دی گئی تھیں لیکن ان پی پی ایز میں کام کرنا بھی خاصا دشوار عمل تھا اور جن حالات میں انہوں نے کام کیا کوئی کتاب بھی ان حالات کا احاطہ نہیں کر سکے گی۔
انہوں نے مزید بتایا کہ اسپتال میں انہیں پانی کا ایک گھونٹ تک پینے کی بھی اجازت نہیں تھی۔ کیوں کہ پی پی ایز میں ہیلتھ کیئر ورکر مکمل طور پر سیل ہو جاتا تھا۔ گرمی بہت زیادہ تھی اور روزے کی حالت میں بھی سب کام کر رہے ہوتے تھے۔ اس کے علاوہ جب گھر جاتے تھے تو اس کے لیے الگ ایس او پیز ہوتے تھے وہاں پر بھی سب سے الگ تھلگ رہنا ہوتا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ تین بچوں کی ماں ہونے کے باوجود انہیں اپنی فیملی سے ایک چھت کے نیچے الگ رہنا پڑا۔ کیوں کہ وہ زیادہ تر وقت کرونا کے مریضوں کے ساتھ گزارتی تھیں اور وائرس خاندان کے دیگر افراد تک منتقل ہونے کا خطرہ رہتا تھا۔ تاہم وہ کہتی ہیں کہ اب حالت قدرے بہتر ہے اور لوگوں کی قوتِ مدافعت کافی بہتر ہو گئی ہے اور اس کے علاوہ اسپتال کا عملہ بھی پوری طرح سے تربیت یافتہ ہو گیا ہے۔ غلام دستگیر کا شمار ان ہزاروں افراد میں ہوتا ہے جو کرونا وبا کی پہلی لہر میں شکار ہوئے۔
ان کا کہنا ہے کہ شروع کے دنوں میں اس کا خوف بہت زیادہ تھا۔ انہیں کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیا کیا جائے۔ ایک تو بیماری نئی تھی۔ دوسرا اس کا نفسیاتی دباؤ بہت زیادہ تھا۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے ساتھ ساتھ یہ بیماری ان کی اہلیہ اور والدہ کو بھی لگی۔ بزرگ ہونے کی وجہ سے انہیں والدہ کی بہت زیادہ فکر تھی۔ غلام دستگیر کا مزید کہنا تھا کہ اموات کی شرح میں تیزی سے اضافہ ان کے لیے باعثِ پریشانی تھا۔ کرونا وبا کے ساتھ ساتھ وہ ڈپریشن کا بھی شکار ہو گئے۔ کیوں کہ ان کی گلی پر پولیس کا پہرا بٹھا دیا گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ لوگوں کے لیے اچھوت بن گئے۔ انہوں نے بتایا اگرچہ وہ اب مکمل طور پر صحت یاب ہو گئے ہیں تاہم جس تکلیف سے وہ گزرے ہیں وہ اب بھی بنیادی احتیاطی تدابیر جس میں ماسک اور سینیٹائزر کے استعمال کے ساتھ مناسب سماجی فاصلے کا بھی اہتمام کرتے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر فیصل سلطان کا کہنا ہے کہ ایسا بھی نہیں ہے کہ پاکستان میں کوئی ایس او پیز کو فالو نہیں کر رہا ہے۔
انہوں بتایا کہ حکومت نے جہاں ضروری سمجھا وہاں پر سختی دکھائی۔ بڑے اجتماع، شادی ہالز، اسکول اور کالجز کی سرگرمیوں کو محدود کیا۔ ڈاکٹر فیصل سلطان کا مزید کہنا تھا کہ اگرچہ ایس او پیز پر ہر جگہ عمل درآمد نہیں ہو رہا ہے لیکن کم از کم پورے پاکستان میں اس وبا کے بارے میں آگاہی ضرور پائی جاتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں کرونا وبا کے باعث زیادہ تر اموات بزرگ شہریوں کی ہوئی ہیں۔