آپ کتنے ہی امیر اور مشہور کیوں نہ ہوں، اگر دفتر کے کمرے پر چیئرمین پی سی بی کی تختی لگی ہو تو اس خوشی اور اطمینان کا کوئی نعم البدل ہو ہی نہیں سکتا، شاید یہی وجہ ہے کہ بڑے بڑے لوگ اس عہدے کو حاصل کرنے کیلیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتے ہیں، کرسی پر براجمان ہونے کیلیے ارباب اختیار کو وفاداری کا پورا یقین دلانا پڑتا ہے، پھر اگر ’’بادشاہ سلامت‘‘ خوش ہو کر کہیں کہ مانگو کیا مانگتے ہو تو یہ عہدہ مانگ لیں، یہ موقع بس چند ہی ’’خوش نصیب‘‘ لوگوں کو ملتا ہے، پاکستان میں چیئرمین کرکٹ بورڈ بننا بہت بڑی بات ہے۔
اب بھی پی سی بی میں نئے چیئرمین کو لانے کیلیے اسکرپٹ کے مطابق کام جاری ہے،شاید پاناما کیسز کی وجہ سے کسی کے اصرار پر وزیر اعظم نے بظاہر عجلت میں گورننگ بورڈ کیلیے دو ناموں کی منظوری دے دی، حسب توقع ان میں سے ایک نجم سیٹھی کا ہے جن کے بارے میں کافی پہلے ہی اطلاعات سامنے آ چکیں کہ شہریارخان کے جانے پر وہ عہدہ سنبھالیں گے، دوسری شخصیت عارف اعجاز اسپورٹس حلقوں کیلیے غیرمعروف ہیں۔
سابقہ خدمات کے صلے میں وزیر اعظم نے بھی ان کی پیٹھ تھپتھپا دی، اب نجم سیٹھی ناراض ہوئے تو انھیں شہریار کے عہدے کی مدت ختم ہونے پر تین برس کیلیے عہدہ سونپنے کا خواب دکھا کر بہلا دیا گیا، پھر وہی اسکرپٹ تیار ہوئی جس کا ابتدا میں ذکر کیا گیا، اب اگلا مرحلہ گورننگ بورڈ ارکان کے انتخاب کا ہو گا جو پھر نیا چیئرمین چنیں گے۔
کسی کی مجال ہے کہ وہ نجم سیٹھی کے مقابل الیکشن میںکھڑا ہویوں بظاہر جمہوری مگر سابقہ ہی انداز سے پی سی بی میں قیادت کی تبدیلی کا عمل مکمل ہو جائے گا، البتہ اگر سیاسی محاذ پر جاری گرم گرمی بڑھی تو منصوبہ فیل ہونا بھی خارج از امکان نہیں، اسی طرح اگر نجم سیٹھی چیئرمین بن بھی گئے تو ذکا اشرف بھی قانونی چارہ جوئی کیلیے تیار بیٹھے ہوں گے، جب سابقہ حکومت تبدیل ہوئی تو جس انداز میں انھیں ہٹایا گیا وہ اسے فراموش نہیں کر سکے، چاہے امریکا سے کوئی شخص آ کر چیئرمین بن جائے ذکا اشرف کوئی اعتراض نہیں کریں گے مگر نجم سیٹھی سے سابقہ قانونی جنگ کو وہ بھولے نہیں اور انھیں آسانی سے عہدہ نہیں سنبھالنے دیں گے، پھر سب جانتے ہیں کہ عدالتیں آزاد ہیں، ایسے میں کوئی بھی فیصلہ آ سکتا ہے اس لیے نجم سیٹھی کے حامیوں کو ابھی سے مٹھائیوں کے آرڈر دینے کے بجائے انتظار کرنا چاہیے۔
پی سی بی میں اعلیٰ قیادت کے ساتھ اور بھی کئی تبدیلیاں متوقع ہیں، شکیل شیخ اب گورننگ بورڈ کے رکن نہیں رہیں گے، نجم سیٹھی سے بظاہر قربت کی وجہ سے لوگوں کا خیال تھا کہ شاید وزیر اعظم ہاؤس سے نامزد کردہ شخصیات میں دوسرا نام ان کا ہو مگر ایسا نہ ہوا، بعض لوگ ماضی کی طرح ارکان کی تعداد بڑھا کر انھیں لانے کا قیاس ظاہر کر رہے تھے مگر شاید اب ایسا بھی نہ ہو،شکیل شیخ نے نجم سیٹھی کا بہت ساتھ دیا، سالانہ اجلاس میں ایجنڈے سے ہٹ کر انھیں چیئرمین بنانے اورحسن کارکردگی ایوارڈ دلانے کی قرارداد تک پاس کرا لی جس پر تنقید کا بھی نشانہ بنے، مگر اس کے باوجود نئی ٹیم میں ان کا کوئی کردار نہیں ہو گا۔
کئی برس اقتدار میں رہنے کے بعد اب انھیں پی سی بی سے باہر ہونا پڑے گا، اس وقت وہ ڈومیسٹک کرکٹ میں سیاہ و سفید کے مالک ہیں، ڈومیسٹک افیئرز کمیٹی کے سربراہ اور گیم ڈیولپمنٹ کمیٹی کے بھی رکن ہیں، مگر چونکہ اب مطلب نکل چکا اور ضرورت نہیں رہی لہذا جلد ہی یہ عہدے ان سے چھین لیے جائیں گے،شاید کسی عہدے کی زبانی پیشکش ہوئی ہو مگر مجھے ایسا ہوتا دکھائی نہیںدیتا، البتہ شکیل شیخ جیسی دبنگ شخصیت کو اپوزیشن میں لانا کسی بھی چیئرمین کیلیے گھاٹے کا سودا ثابت ہو سکتا ہے۔
سی او او سبحان احمد ویسے ہی لو پروفائل میں رہتے ہیں، انھیں دوسروں کے کیے دھرے کاموں کی بعض فائلز دکھا کر دباؤ کا شکار کیا جاتا رہا اور اب امکان ہے اگلے سیٹ اپ میں ان کی جگہ موجودہ ڈائریکٹر گیم ڈیولپمنٹ ایزد سید کو آگے لایا جائے گا، بطور چیف سلیکٹر برطرف ہونے والے ہارون رشید کو نجم سیٹھی ڈائریکٹر کرکٹ آپریشنز کی نئی پوسٹ تخلیق کر کے دوبارہ بورڈ میں لائے، وہ بھی اپنے لیے نئے سوٹ سلوا لیں کیونکہ فرنٹ فٹ پر آکر کھیلنے کا موقع ملنے والا ہے۔
نجم سیٹھی کے قریبی چند افراد کی سیٹیں تو پکی ہیں البتہ بعض آفیشلز کو ابھی سے اپنے لیے نئی ملازمتیں تلاش کرنا شروع کر دینی چاہئیں۔ دیکھتے ہیں ہوتا کیا ہے مگر آنے والے چند دنوں میں آپ پاکستان کرکٹ بورڈ میں کئی ڈرامائی تبدیلیاں دیکھیں گے، افسوس اس بات کا ہے کہ کچھ اچھا ہونے کا زیادہ امکان نہیں اور حالات مزید خراب ہوتے ہی دکھائی دے رہے ہیں، ایسے میں ہمیں صرف یہی دعا کرنی چاہیے کہ اچھے لوگ آئیں تاکہ ہماری کرکٹ پھلے پھولے، اچھی خبریں میڈیا کو ملیں، منتظمین کی نااہلی کے سبب پی ایس ایل اسپاٹ فکسنگ جیسی منفی نیوز اسپورٹس صفحات اور بلیٹنز کا حصہ نہ بنیں۔