امریکی ایوان نمائندگان نے پاکستان کو دی جانے والی فوجی امداد پر مزید شرائط عائد کرنے کا بل منظور کر لیا ہے۔
بل کے تحت بھارت سے دفاعی تعاون بڑھایا جائے گا جبکہ پاکستان کی 40 کروڑ ڈالر امداد سے پہلے امریکی وزیر دفاع کو پاکستان سے متعلق سرٹیفکیٹ پیش کرنا ہوگا کہ پاکستان کسی دہشت گرد کی مالی یاعسکری مدد نہیں کررہا اور یہ کہ پاکستان حقانی نیٹ ورک کے خلاف آپریشن اور عسکریت پسندوں کی نقل و حرکت روکنے کیلئے افغان حکومت سے تعاون کررہا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ امریکا افغانستان اور پاکستان کے حوالے سے جلد نئی پالیسی کا اعلان بھی جلد کردے گا۔
امریکی ایوان نمائندگان نے بھارت سے دفاعی تعاون بڑھانے اور پاکستان کی امداد پر سخت شرائط عائد کرنے کا بل منظور کرلیا۔ امریکی امداد کے 696اراب ڈالر سےزائد کے اس دفاعی پالیسی بل کے حق میں 344 اور مخالفت میں 81 ووٹ ڈالے گئے، بل پرعمل اسی سال یکم اکتوبر سےہوگا۔ بل میں لگائی گئی نئی شرائط کے تحت پاکستان کودفاعی امدادحاصل کرنے کیلئے انسداد دہشت گردی آپریشنز کے لیے واضح اقدامات کرنے ہوں گے، سرحد پارحملےروکنےکے ساتھ ساتھ بارودی سرنگوں سے نمٹنے کے لیے مناسب کارروائی کرنا ہوگی۔
بل کے تحت یکم اکتوبر 2017ءسے31 دسمبر 2018ءتک پاکستان کیلئےمخصوص 40 کروڑ ڈالرامداد اس وقت تک نہیں دی جائے گی جب تک امریکی وزیر دفاع اس بات کی تصدیق نہ کردیں کہ پاکستان شمالی وزیرستان میں حقانی نیٹ ورک کے خلاف مسلسل فوجی آپریشن کر رہا ہے اور پاک افغان سرحد پر عسکریت پسندوں کی نقل و حرکت کو روکنے کیلئے افغان حکومت سے مکمل تعاون کر رہا ہے۔
دفاعی پالیسی بل اب سینٹ سے منظورہوگا جس کے بعدامریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس کی حتمی منظوری دیں گےاوریہ قانون کی شکل اختیار کر جائے گا۔ ادھر امریکی قومی سلامتی کے مشیر جنرل ایچ آر میک ماسٹر کا کہنا ہے کہ امریکا ایسی پالیسی پر کام کررہا ہے جوکسی ایک ملک کیلئے نہیں بلکہ جنوبی ایشیا کیلئے ہوگی لیکن اس کااطلاق خصوصی طورپر پاکستان اور افغانستان دونوں پر کیا جاسکے گا، پالیسی کا اعلان جلدکر دیا جائے گا۔