ہم فیصلے کے وقت جے آئی ٹی رپورٹ نہیں بلکہ دستاویزات کا معائنہ کریں گے :کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس
اسلام آباد: سپریم کورٹ میں پاناما عملدرآمد کیس کی سماعت کا آغاز ہوگیا ۔ سپریم کورٹ کا تین رکنی بینچ کیس کی سماعت کر رہا ہے ۔ کیس کی سماعت کا آغاز ہوا تو شریف خاندان کے وکیل کی جانب سے دلائل کا آغاز کیا گیا۔ خواجہ حارث نے شریف خاندان کی جانب سے کیس میں اپنے دلائل کا آغاز کیا۔ گزشتہ روز پی ٹی آئی، جماعت اسلامی اور دیگر جماعتوں کی جانب سے دلائل مکمل ہوگئے تھے ۔سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت کے آغاز کےموقع پر ریمارکس دیئے کہ ہم نے جے آئی ٹی ریورٹ پر فیصلہ نہیں کرنا ، ہم کیس کے فیصلے کے وقت جے آئی ئی رپورٹ نہیں بلکہ کیس کی دستاویزت کا معاءن
شریف خاندان کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ایف آئی اے اور نیب کے پاس فلیٹس سے متعلق تمام ریکارڈ موجود تھا ، ایف آئی اے کی تحقیقات کو ہائیکورٹ نے منسوخ کر دیا تھا، پہلے صرف 13 سوالات پوچھے جانے تھے بعد ازاں جے آئی ٹٰی نے دو مزید سوالوں کا اضافہ کر دیا ، خواجہ حارث نے کہا کہ جے آئی ٹٰی کی جانب سے شریف خاندان کی آمدن سے زائد اثاثوں پر سوالات اٹھائے گئے جس پر جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ جے آئی ٹی کے پاس اثاثوں سے زائد آمدن مینڈیٹ نہیں تھا ، خواجہ حارث نے مزید کہا کہ جے آئی ٹی نے عدالتوں سے خارج معاملات کی جانچ پڑتال کی ، محض سوالات کی بنا پر حدیبیہ پیپر مل کیس کو دوبارہ نہیں کھولا جا سکتا ، عدالت نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ اس بات سے تو ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ سوالات کی روشنی میں حدیبیہ پیپر ملز کیس کو دوبارہ نہیں کھولا جاسکتا ۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ عدالت نے یہ حکم دیا تھا کہ جے آئی ٹی تمام ریکارڈ کا بغور جائزہ لے اور ریکارڈ کا معائنہ کرنے کے بعد اس کا فیصلہ کیا جائے کہ اس کا تعلق لندن فلیٹس سے تو نہیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ لندن فلیٹس کی منی ٹریل آج تک ایک معمہ بنی ہوئی ہے۔