counter easy hit

پاناما کیس: سلمان اکرم راجہ کی میڈیا سے گفتگو پر عدالت کا اظہار برہمی

سپریم کورٹ میں پاناما کیس کی سماعت شروع ہوچکی ہے جس میں وزیراعظم کے بچوں کے وکیل سلمان اکرم راجہ دلائل دے رہے ہیں۔

Panama case: The court angry on Salman Akram Raja talkes with media

Panama case: The court angry on Salman Akram Raja talkes with media

پاناما کیس کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی رپورٹ جمع کرانے کے بعد عدالت عظمیٰ کا 3 رکنی بینچ آج کیس کی چوتھی سماعت کررہا ہے۔ عدالتی بینچ جسٹس اعجاز افضل خان کی سربراہی میں جسٹس عظمت سعید اور جسٹس اعجازالاحسن پر مشتمل ہے۔ شریف خاندان کی جانب سے آج لندن فلیٹس اور آف شور کمپنیوں کی ملکیت کی دستاویزات آج جمع کرائی جائیں گی۔ اسحاق ڈار کے وکیل ڈاکٹر طارق حسن گزشتہ روز اپنے دلائل مکمل کرچکے ہیں جس کے بعد آج سلمان اکرم راجہ دلائل دے رہے ہیں۔ سلمان اکرم راجہ کے دلائل کے آغاز میں بینچ کے سربراہ جسٹس اعجاز افضل خان اور جسٹس عظمت سعید نے سماعت سے قبل ان کی میڈیا سے گفتگو پر اعتراض کیا۔

جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ آپ نے میڈیا کے سامنے اپنا کیس پیش کیا، آپ کی تمام دستاویزات میڈیا میں زیر بحث آئیں اس لیے میڈیا کو دلائل بھی دے دیتے۔ جب کہ جسٹس اعجاز افضل کا بھی برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہنا تھا کہ باہر میڈیا کا ڈائس لگا ہے، وہاں دلائل بھی دے آئیں۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ میڈیا کو میری طرف سے دستاویزات نہیں دی گئیں جس پر جسٹس عظمت کا کہنا تھا کہ تمام دستاویزات لیگل ٹیم نے ہی میڈیا کو دی ہوں گی، دونوں دستاویزات عدالت میں ہی کھولیں گے، ہم اطمینان سے آپ کی بات سنیں گے۔

سلمان اکرم راجہ کے دلائل کی ابتدا میں ہی بینچ کے سربراہ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ جے آئی ٹی کے نام پر چند دستاویزات ہمیں موصول ہوئی ہیں۔ جب کہ جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ ایک دستاویز قطری شہزادے ایک برٹش ورجن آئی لینڈ سے متعلق ہے، قطری خط میں کیا ہے یہ علم نہیں، جے آئی ٹی نے متعلقہ حکام سے تصدیق کروانا تھی، جے آئی ٹی نے اسی وجہ سے تصدیق کے لیے دستاویزات بھجوائیں، مریم کے وکیل نے عدالت میں منروا کے دستاویزات سے لاتعلقی ظاہر کی۔

سلمان اکرم راجہ نے مؤقف اپنایا کہ جے آئی ٹی نے یو اے ای کے خط پر نتایج اخذ کیے، یو اے ای کے خط پر حسین نواز سے کوئی سوال نہیں پوچھا گیا، حسین نواز کی تصدیق شدہ دستاویزات کو بھی نہیں مانا گیا۔ وزیراعظم کے بچوں کے وکیل سلمان اکرم نے عدالتی بینچ کے روبرو یو اے ای کی وزارت انصاف کا خط پڑھ کر سنایا۔ جس پر جسٹس اعاز الاحسن نے استفسار کیا کہ یواے ای سے بھی حسین نواز کے دستاویزات کی تصدیق مانگی گئی تھی جس پر سلمان اکرم نے کہا خط میں کہا گیا کہ مشینری کی منتقلی کا کسٹم رکارڈ بھی موجود نہیں، 12 ملین درہم کی ٹرانزیکشنز کی بھی تردید کی گئی، یو اے ای حکام نے گلف ملز کے معاہدے کا رکارڈ نہ ہونے کا جواب دیا۔

جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ یو اے ای حکام نے کہا تھا یہ مہر ہماری ہے ہی نہیں،۔ سپریم کورٹ میں آج بھی کیس کی سماعت کے موقع پر فریقین سمیت مسلم (ن)، تحریک انصاف، جماعت اسلامی اور پیپلزپارٹی کے رہنما سمیت دیگر اپوزیشن اراکین کمرہ عدالت میں موجود ہیں۔ جے آئی ٹی رپورٹ جمع ہونے کے بعد 17 جولائی سے جاری کیس کی سماعت میں اب تک تحریک انصاف، جماعت اسلامی کے وکیل، شیخ رشید، وزیراعظم اور اسحاق ڈار کے وکیل اپنے دلائل مکمل کرچکے ہیں۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے حکم پر 20 اپریل کو شریف خاندان کی منی ٹریل کی تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی تشکیل دی گئی تھی جسے 60 روز میں اپنی تحقیقات مکمل کرنے کا حکم دیا گیا۔مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) نے گزشتہ ہفتے 10 جولائی کو دس جلدوں پر  مشتمل اپنی رپورٹ عدالت عظمیٰ میں جمع کروائی جس کے مطابق شریف خاندان کے معلوم ذرائع آمدن اور طرز زندگی میں تضاد ہے۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website