کراچی: ڈومیسٹک کرکٹ سے چھیڑ چھاڑ پر ڈائریکٹر اکیڈمیز بھی ناخوش نظر آتے ہیں۔
کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ڈائریکٹر اکیڈمیز مدثر نذر نے کہا کہ میں ڈومیسٹک کرکٹ سسٹم میں بار بار تبدیلیوں کے حق میں نہیں ہوں ، رنجی ٹرافی کا80سال سے ایک ہی فارمیٹ ہے،کاؤنٹی میں بھی تھوڑا بہت ردوبدل ہوا، کسی بھی ملک میں سسٹم اس طرح تبدیل نہیں ہوا جیسا پاکستان میں ہوتا ہے، ایسا کرنا زیادتی ہے، میری رائے میں ڈومیسٹک کرکٹ کیلیے ایک سسٹم ہونا چاہیے جو طویل عرصے تک چلے۔ قائد اعظم ٹرافی ٹیموں کے انتخاب میں ڈرافٹ کا طریقہ کار متعارف کرائے جانے کے سوال پر سابق ٹیسٹ کرکٹر نے کہا کہ میں انگلینڈ گیا ہوا تھا ورنہ اپنی رائے اور تجاویز ضرور دیتا، دنیا بھر میں ڈرافٹ سسٹم لائے جانے کا مقصد کھیل میں اسپانسرز اور پیسہ لانا ہے،دیکھیں پاکستان کرکٹ میں اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ مدثر نذر نے کہا کہ ہائی پرفارمنس کیمپ میں شریک کرکٹرز میں سے4اچھے آل راؤنڈر ثابت ہوسکتے ہیں، کسی وقت میں ہمارے پاس زیادہ آل راؤنڈرز ہوتے تھے، اس وجہ سے اظہر محمود کی ٹیم میں جگہ بنانا بھی مشکل ہوجاتی، میرے کوچنگ کے دور میں پاکستان نے کئی میچ عبدالرزاق کی شاندار کارکردگی سے جیتے،ان کے پاس کوئی پلان ہے تو آگاہ کریں،آل راؤنڈرز کی تیاری کیلیے وہ ہمارے ساتھ کام کریں تو خوشی ہوگی۔
ڈائریکٹر اکیڈمیز نے کہا کہ نیا ٹیلنٹ تلاش کرنے کیلیے مسلسل محنت کرنا پڑتی ہے، میں نے9سال قبل اکیڈمی میں کام شروع کیا تو اس وقت کی کھیپ سے کئی کرکٹرز ملک کیلیے کھیلے،کئی آج بھی قومی ٹیم میں شامل ہیں۔ مصباح الحق، سلمان بٹ، شعیب ملک، دانش کنیریا، محمد عامر اور جنید خان ان میں سے چند نام ہیں، پاکستان ’’اے‘‘ کے کھلاڑی شرجیل خان، فخرزمان،حسن علی اور محمد عباس بھی ایک سسٹم سے آگے آئے،ملک میں ٹیلنٹ کی کمی کا شکوہ درست نہیں، صرف اسے تلاش اور گروم کرنے کی ضرورت ہے،دودراز علاقوں سے اسپنرز منتخب کرنے کیلیے گئے تو شارٹ لسٹ ہونیوالے 13بولرز میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں تھا کہ اس کو چھوڑ دیتے،سب کو ملتان اکیڈمی بلالیا۔
وسیم اکرم اور وقار یونس کے جیسے پیسرز میسر نہ آنے کے سوال پر مدثر نذر نے کہا کہ دونوں کا شمار کرکٹ کی تاریخ کے 10بہترین بولرز میںہوتا ہے،اس طرح کی غیرمعمولی صلاحتیں کبھی کبھار ہی دیکھنے کو ملتی ہیں،ہم دودراز علاقوں میں فاسٹ بولرز کی تلاش کیلیے گئے تھے لیکن کسی کی بھی رفتار 139سے زائد نہیں تھی،فرسٹ کلاس کرکٹ میں بھی اس سے زیادہ پیس نہیں دیکھی،البتہ انڈر 16 میں 138 کے قریب رفتار رکھنے والے بولرز نظر آئے ہیں۔ ان کیساتھ کام کیا جائے تو مستقبل کی ضروریات پوری کرسکتے ہیں،محمد عامر کو سوئنگ کی بنیاد پر کیمپ کیلیے منتخب کیا لیکن ان کے سر کا جھکاؤ درست نہ ہونے کی وجہ سے کمر پر دباؤ بڑھتا تھا، اسی وجہ سے انڈر19ٹیم کے دورئہ انگلینڈ میں تکلیف کا شکار ہوئے،فریکچر سامنے آگیا، بعد ازاں اکیڈمی میں محنت کرکے مسائل دور کیے۔ مدثر نذر نے کہا کہ سرفراز احمد کو تینوں فارمیٹ کیلیے بہترین کپتان قرار دیا جاسکتا ہے کیونکہ وکٹ کیپر بیٹسمین ایک سسٹم سے گزر کر آئے ہیں،انھوں نے لڑکپن سے اب تک مختلف ٹیموں کی قیادت کا تجربہ حاصل کیا، چیمپئنز ٹرافی میں اپنی غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے ہر میچ کے ساتھ بطور قائد بھی کارکردگی میں بہتری لائے۔