یونس خان اور مصباح الحق کی ریٹائرمنٹ کے بعد پاکستان کی مڈل آرڈر بیٹنگ خاصی کمزور نظر آرہی تھی اور اس ٹیم سے قوم کو زیادہ توقعات بھی نہیں تھیں مگر چیمپئنز ٹرافی میں نوجوان کرکٹرز اور کچھ سینئرز نے ایسا کھیل پیش کیا کہ ہر پاکستانی کا سر فخر سے بلند ہوگیا، خاص طور پر فائنل میں بھارت کو تقریباً ہر شعبے میں آؤٹ کلاس کردینا بہت بڑا کارنامہ تھا، سرفراز احمد کی قیادت نے ٹیم میں نئی روح پھونک دی ہے، بھارت سے پہلا میچ ہار کر ٹیم کے حوصلے پست نظر آرہے تھے، اسی ٹیم کو یکجا کرکے ان کھلاڑیوں سے وہ پرفارمنس لینا یہی ایک اچھے کپتان کی نشانی ہے۔
سلیکشن کمیٹی کا ایک ساتھ کئی نئے چہرے متعارف کروانا بھی بہت ہمت کا کام ہے، جن کھلاڑیوں سے امیدیں وابستہ کی گئی تھیں وہ یقینا ان پر پورا اترے، حسن علی ہوں، فخر زمان، شاداب خان اور رومان رئیس نے ملنے والے مواقع سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور شاندار کارکردگی دکھائی، ان نوجوان کھلاڑیوں نے تجربہ کم ہونے کے باوجود سری لنکا، جنوبی افریقہ اور پھر انگلینڈ کو اس کی سرزمین پر شکست دے کر غیر معمولی کارنامے سرانجام دیئے، سینئرز محمد حفیظ، شعیب ملک اور محمد عامر نے بھی بہت اہم کردار ادا کیا،ان فتوحات نے ثابت کیا ہے کہ قیادت دلیر اور ملک و قوم کے لیے کچھ کردکھانے کا جذبہ ہوتو کچھ بھی ناممکن نہیں۔
یہ فتح اب تاریخ کا حصہ بن گئی ہے اس کو بھلا کر عزم نو سے محنت کرنے کی ضرورت ہے، اپنی فٹنس، پرفارمنس، میدان کے اندر اور باہر ڈسپلن کو فروغ دینے کا سلسلہ جاری رکھنا ہوگا، آن اور آف دی فیلڈ دونوں جگہ پاکستان کا نام آپ کے ساتھ جڑا ہوتا ہے، ذرا سی کوتاہی ملک کی بدنامی کا سبب بنتی ہے، پوری ٹیم کو ماضی سے سبق لیتے ہوئے ہی غیر ضروری سرگرمی سے گریز کرتے ہوئے صرف اور صرف کرکٹ پر توجہ مرکوز رکھنا ہوگی۔
شہریار خان بڑے اچھے انداز میں پی سی بی سے رخصت ہوئے، ان کے دور میں پاکستان ٹیم ٹیسٹ رینکنگ میں نمبر ون بنی، چیمپئنز ٹرافی کا جیتنا اور پھر نوجوان کھلاڑیوں کا متعارف کروانا بڑی کامیابیاں ہیں، اب نجم سیٹھی چیئرمین بنے ہیں، پی ایس ایل کی کامیابی سے وہ بھی خود کو منوا چکے، اب بطور چیئرمین بھی یقیناً ملکی کرکٹ کو نئی بلندیوں پر لے جائیںگے۔
چیمپئنز ٹرافی کی کامیابی کے باوجود کھلاڑیوں کو ابھی بہت کچھ سیکھنا ہے، ٹیم میں آنا آسان مگر مستقل جگہ بنانا ایک دشوار گزار مرحلہ ہوتا ہے، مجھے یقین ہے کہ سرفراز کی قیادت میں ٹیم ہر فارمیٹ میں متحد ہو کر کھیلے گی۔ پی ایس ایل سے نیا ٹیلنٹ سامنے آرہا ہے،اس کو ضائع ہونے سے بچانا اور گروم کرنے کے موقع پیدا کرنا ہوں گے، پاکستان میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں، دنیائے کرکٹ پر سکہ جمانے کے لیے سخت محنت کرنا ہوگی۔
گرین شرٹس کا اگلا ہدف ورلڈ کپ2019ہونا چاہیے، میگا ایونٹ کی کنڈیشنزکو پیش نظر رکھتے ہوئے ابھی سے ٹھوس پلاننگ کے ساتھ تیاریاں شروع کردینا چاہیں، بیٹنگ میں جہاں، جہاں کمزوریاں نظر آرہی ہیں،ان پر کام کرنے کے ساتھ ہر پوزیشن کے لیے متبادل کھلاڑی بھی تیار کرنے کی ضرورت ہے،بولنگ میں بھی ایک سے زیادہ آپشن ہونا ضروری ہیں، آئندہ ہر سیریز میں کوئی بھی تجربہ کرتے ہوئے ورلڈکپ کے ہدف کو ہی پیش نظر رکھنا چاہیے،بہتر حکمت عملی کے ساتھ درست سمت میں گامزن رہنے سے ہی میگا ایونٹ میں اچھی کارکردگی کی توقع کرسکتے ہیں۔
ورلڈ الیون اور سری لنکا کے متوقع دورے پاکستان کرکٹ کیلیے بڑے خوش آئند ہوں گے،ملک میں سیکیورٹی کی صورتحال بہتر ہونے کے بعد مہمان ٹیموں کی سیریز کامیابی سے ہوگئیں تو آنے والے وقتوں میں انٹرنیشنل کرکٹ کے دروازے کھلتے جائیں گے، ایک عرصہ بعد ملکی میدانوں کی ویرانی ختم کرنے کی جانب پیش رفت دیکھ کر بڑی خوشی محسوس ہوتی ہے،دعا ہے کہ یہ سفر جاری وساری رہے۔