آج یعنی یکم ذوالحج وہ مبارک و مسعود دن ہے جب مولائے کائنات جناب امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام اور جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا عقد مسنون قرار پایا۔
حدیث قدسی میں مرقوم ہے کہ خدا نے جبرئیل علیہ السلام کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پیغام دے کر بھیجا کہ میں نے علی و بتول کا نکاح آسمان پر کر دیا ہے ، سو آپ زمین پر بھی یہ فریضہ انجام دے دیجئے۔
علی (ع) اور فاطمہ (س) کا عقدِ ازدواج دو ایسے طالب علموں کا بندھن ہے جو ایک ہی استاد کے محضر درس سے مستفید ہوۓ ہیں۔ اور یہی عامل اس بات کا سبب ہوا ہے کہ وہ عقلی، روحانی، اخلاقی اور کرداری لحاظ سے آپس میں مکمل ہم آہنگ ہیں۔ لہٰذا جب ہم حضرت علی (ع) کی شخصیت پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں رسول خدا (ص) نظر آتے ہیں۔ بالکل اسی طرح جب فاطمہ زہرا (س) کی زندگی کا جائزہ لیتے ہیں توان کے وجود میں بھی پیغمبر کا نظارہ کرتے ہیں۔
اس عقد مبارک کے دیگر حقائق اور جہیز سے متعلق واقعات تو احباب کی یادداشتوں میں تازہ ہوں گے۔ میں صرف ان چند حیران کن اور ہوشربا باتوں کا تذکرہ ضروری سمجھوں گا جو میری نظر اور سماعت سے گزرے ہیں۔
روایات میں ہے کہ بی بی سیدہ (س) بوقت نکاح سفید لباس میں ملبوس تھیں (یہاں اس بات کا بھی پتا چلتا ہے کہ دلہن کا سفید لباس ہونا سنت سیدہ ہے جبکہ ہمارے یہاں ہندوستان کی ثقافت کے مطابق سرخ رنگ رائج ہے۔) ایک کنیز نے آپ کے لباس کی تعریف کی تو آپ اندر تشریف لے گئیں اور اپنا پرانا لباس زیب تن فرما کر آگئیں اور وہ نیا سوٹ اس کنیز کو ہبہ کردیا۔
بعد از رخصتی مولا علی (ع) نے آپ کی دلجوئی فرماتے ہوئے دریافت کیا کہ آپ کچھ گھبرائی ہوئی محسوس ہورہی ہیں۔ جوابا” آپ نے فرمایا کہ آج رات میں اپنے والد کے یہاں سے رخصت ہو کر آپکے گھر آئی ہوں۔ یہاں بھی میرا قیام عارضی ہے اور کل مجھے اپنے اصلی یعنی خدا کے گھر جانا ہے۔ اس لیئے میں چاہوں گی کہ آجکی رات خدا کی عبادت میں بسر کروں۔ (سبحان اللہ)
روایت ہے کہ حضرت علی (ع) اور حضرت فاطمہ زھرا (ع) کی شادی کے موقع پر جبرائیل خداوند متعال کی طرف سے ایک ریشمی تختی لائے جس پر لکھا تھا: “خداوند عالم نے امت محمدی کے گنہگار افراد کی شفاعت کو فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا کا مہریہ قرار دیا ہے”۔
میری جانب سے تمام امت کو یہ نعمت عظمی اور عظیم انعام مبارک ہو، جو دنیا و آخرت میں ہماری نجات کا ضامن ہے۔