میں اپنے طالب علموں کو سیاست سے ہمیشہ دور دور رہنے کا مشورہ دیتا ہوں اور میری نصیحت یہی ہے کہ طلباء مذہبی اور سیاسی بحثوں سے دور رہ کر اپنی تعلیم پر توجہ دیں۔ چار برس پہلے جامعہ پنجاب کے ادارہ علوم ابلاغ عامہ میں طلبہ و طالبات نئی حکومت کے حوالے سے کنفیوز تھے اور اس حوالے سے اکثر سوالات کیا کرتے تھے کہ نواز شریف حکومت کے لیے بہتر ہیں یا عمران خان، گزشتہ روز میرے ایک طالب علم کا جرمنی سے فون آیا کہ سرآپ نے اس وقت کلاس میں جو کہا تھا وہی خان صاحب نے بی بی سی کو انٹرویو میں کہا ہے۔
مجھے خوشگوار حیرت ہوئی کہ آج کا طالب علم کس قدر غور و فکر کرتا ہے، اس نے مجھے بتایا کہ جب مرکزی حکومت مسلم لیگ ن کے پاس آئی اور کے پی کے میں تحریک انصاف کی حکومت بنی تو میں نے لیکچر کے دوران اپنے طالب علموں سے ایک سوال پوچھا تھا کہ آپ چند دوست ایک کار میں جب کسی پرخطر پہاڑ پر چڑھ رہے ہوں تو ڈرائیونگ سیٹ پر کس ساتھی کو بٹھانا پسند کریں گے تو سب نے جواب دیا کہ سر ظاہر ہے اس شخص کو جس کے پاس اس حوالے سے سب سے زیادہ تجربہ اور اہلیت ہو گی تو آپ نے بتایا تھا کہ ملک چلانا تو اس سے کہیں زیادہ مشکل کام ہے، ابھی تحریک انصاف کے پاس ملک چلانے کا تجربہ نہیں ہے،کرکٹ کے میدان اور ملک چلانے میں بہت فرق ہوتا ہے۔
اس انٹرویو میں عمران خان صاحب نے فرمایا کہ خدا کا شکر ہے کہ چار سال پہلے ہمیں مرکز میں حکومت نہیں ملی ورنہ خیبر پختون خوا والا حال ہوتا، حقیقت یہ ہے کہ عمران خان کا بیان ان کا ملک و قوم کے لیے اخلاص ظاہر کر رہا ہے اور یہ بھی اعلان کر رہا ہے کہ سیاست ان کے بس کی بات نہیں، گو ان کے دست راست شاہ محمود قریشی نے جو اس وادی پرخار کے پرانے کھلاڑی ہیں، سارا ملبہ جیو کی رپورٹنگ پر ڈالنے کی کوشش کی کیونکہ تحریک انصاف کو اس حوالے سے یدطولیٰ حاصل ہے۔
میں نے کل کے سارے اخبارات اٹھا کر دیکھے، دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ اخبارات جو سو فیصد حکومت مخالف ہیں اور پہلی سطر سے آخری سطر تک نامعلوم ذرائع کے حوالے سے نواز شریف مخالف خبروں سے لبریز ہوتے ہیں انہوں نے بھی عمران خان صاحب کے حوالے سے وہی خبر رپورٹ کی جو جنگ اور جیو نے بی بی سی کے حوالے سے کی تھی۔
خان صاحب ایک بہت بڑے کھلاڑی ہیں، میں کل بھی ان کی عزت کرتا تھا آج بھی کرتا ہوں، میں بنیادی طور پر تاریخ، ابلاغی سائنس اور معاشرتی نفسیات کا طالب علم ہوں ،ہر شخص کا ایک فریم آف ریفرنس ہوتا ہے اور یہ فریمز اس کے پچپن کے حالات، ماں باپ کے رویوں، اسکول، کالج اور ماحول سے بنتے ہیں اور پھر اس کا پروفیشن اس کے مزاج کا تعین کر دیتا ہے۔
تحریک انصاف کے سربراہ بنیادی طور پر ایک کرکٹر ہیں، ان کا فریم آف ریفرنس سیاست دانوں والا نہیں ہے، جس طرح نواز شریف کبھی بھٹو نہیں بن سکتے لیکن ان کے پاس بہت طویل عرصہ سیاست میں رہنے کا تجربہ ہے جو عمران خان کے پاس نہیں ہے، اسی طرح جناب بھٹو کو جناح سے ملانا خود بھٹو کے ساتھ نا انصافی ہے کیونکہ جناح ایسے ہی قائد اعظم نہیں بن گئے تھے۔
یہ بیان کئی سوالات اٹھا رہا ہے کہ کیا عمران خان یہ سمجھتے ہیں کہ ان چار سالوں میں وہ اتنا تجربہ حاصل کر چکے ہیں کہ وہ اب مرکزی حکومت چلا سکیں اور اگر نہیں تو کیا وہ مملکت پاکستان کو بھی کرکٹ کا میدان ہی سمجھ رہے ہیں کہ اس پر ایک تجربہ اور کیا جا سکتا ہے کیونکہ وہ خود اعتراف کر رہے ہیں کہ ایک سال تک ناتجربہ کاری کی وجہ سے معاملات کا پتہ ہی نہیں چلا لیکن وفاق کے پاس تو دفاع، خارجہ امور اور دیگر حساس معاملات ہوتے ہیں جو صوبہ چلانے والوں کے پاس نہیں ہوتے تو کیا تحریک انصاف کو اگر مرکز میں حکومت مل جاتی ہے تو کتنے ماہ یا سال تک وہ ان معاملات کو سمجھنے میں لگے رہیں گے۔
کیا پاکستان ان سیاست دانوں کی تجربہ گاہ اور عوام ان تجربات کے لیے فالتو کی چیز ہیں، افسوس ہم تیسری دنیا کے ممالک کے عوام کا مقدر ہی یہی ہے کیونکہ ہم اپنا دماغ سے نہیں بلکہ اپنے لیڈر کے دماغ سے سوچتے ہیں، ہم ابلاغ عامہ کے مشہور نظریے، علم اور عمل میں عدم مطابقت کی بڑی خوبصورت مثال ہیں، غالب کیا خوب کہہ گئے ہیں
بازیچۂ اطفال ہے دنیا مرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشہ مرے آگے