ملک کی چھٹی مردم شماری 2017ء کے ابتدائی نتائج کے مطابق ملکی آبادی 1998ء سے 2017ء کے دوران 2.4فیصد سالانہ شرح نمو کے ساتھ 20کروڑ 77 لاکھ 74 ہزار 520 ہوچکی ہے یعنی گزشتہ 19برسوں کے دوران آبادی میں 7کروڑ 54لاکھ 22 ہزار 241 افراد کا اضافہ ہوا ہے۔ جن میں مرد حضرات کی تعداد 10کروڑ 64لاکھ50ہزار جب کہ خواتین کی تعداد 10 کروڑ لاکھ 15 ہزار اور ہیجڑوں کی تعداد 10ہزار 418 ہے۔ اس طرح ملک میں مردوں کی تعداد خواتین کے مقابلے میں 51لاکھ زیادہ ہے۔
صوبائی سطح پر پنجاب کی آبادی 11کروڑ ، سندھ کی آبادی 4کروڑ 78لاکھ ، خیبر پختونخوا کی آبادی 3کروڑ 5لاکھ، بلوچستان کی آبادی 1کروڑ 23لاکھ ، فاٹا کی آبادی 50لاکھ اور وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی آبادی 20لاکھ نفوس پر مشتمل ہے ، آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلستان کے نتائج سمری میں شامل نہیں ہے ۔ آبادی کے لحاظ سے ملک کا سب سے بڑا شہر بدستور کراچی ہے۔
ملک کے 10بڑے شہروں میں کراچی کی آبادی 1کروڑ 49لاکھ 10ہزار352، لاہور ایک کروڑ11لاکھ 26ہزار 285، فیصل آباد 32 لاکھ3ہزار 846،راولپنڈی 20لاکھ98ہزار231،گوجرانوالہ 20لاکھ27ہزار،پشاور 19لاکھ17ہزار، ملتان 18لاکھ71ہزار، حیدر آباد 17لاکھ32ہزار، اسلام آباد 10لاکھ14ہزار اورکوئٹہ کی آبادی 10لاکھ ایک ہزار افراد پر مشتمل ہے۔ عبوری نتائج کے مطابق پاکستان کی شہری آبادی 7کروڑ 55لاکھ 84ہزار 989اور دیہی آبادی 13کروڑ21لاکھ 89ہزار 531ہوگئی ہے۔
واضح رہے کہ قبل ازیں ملک میں آخری مردم شماری 1998ء میں ہوئی تھی۔ یاد رہے کہ ملک میں ہر دس سال بعد قومی مردم شماری ہونی ہے ، ملک میں اب تک 1951ء ، 1961ء ، 1972ء ، 1981ء اور 1998ء میں ہوئی تھی ۔ واضح رہے کہ ملک میں پانچویں مردم شماری 1991ء میں ہونی تھی ابتدائی مرحلے میں خانہ شماری کا کام مکمل کر لیا گیا تھا لیکن اندرون سندھ آبادی میں 770فیصد تک اضافہ کی نا قا بل یقین رپورٹوں کے پیش نظر یہ عمل روک دیا گیا تھا ۔ اس وقت کی خانہ شماری کے نتائج کے مطابق پاکستان کی آبادی 81ملین سے بڑھ کر 133ملین ہوگئی تھی۔ یاد رہے کہ 1991ء کی مردم شماری تین مرتبہ ملتوی ہونے کے بعد یکم مارچ سے 13مارچ 1998ء کو ہوئی تھی.
واضح رہے کہ2010ء میں اس وقت کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی صدارت مشتر کہ مفادات کونسل نے ملک میں مردم شماری کے انعقاد کی منظوری دی تھی جس کے تحت ملک میں خانہ شماری اکتوبر 2010ء جب کہ چھٹی مردم شماری مارچ 2011ء میں ہونا تھی مگر بوجوہ نہیں ہوسکی تھی ۔ اس سے قبل بھی2008ء میں چھٹی مردم شماری ہونی تھی تاہم بعض وجوہات کے باعث اسے ایک سال کے لیے موخر کردیا تھا جب کہ 2009ء میں فاٹا ، بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کی حکومتوں کے کہنے پر ایک مرتبہ پھر مردم شماری و خانہ شماری موخر کردی گئی تھی۔
بعد ازاں اپنے وقت کے وزیر اعظم نواز شریف نے 2014ء میں قومی مردم شماری کرانے کے احکامات جاری کر دیے تھے تاکہ 2018ء میں ہونے والے عام انتخابات نئی مردم شماری کے مطابق کر وائے جاسکیں ۔ اس طرح ملک بھر میں چھٹی قومی مردم شماری مارچ 2016ء میں ہونی تھی اور اس کے عبوری نتائج جون 2016ء میں پیش کیے جانے تھے مگر اس مرتبہ بھی مردم شماری التواء کا شکار ہوگیا تھا ۔ بلآخر عدالتی حکم کے تحت ملک میں چھٹی مردم شماری کرائے گئے جس کے عبوری نتائج قوم کے سامنے ہے جسے سیاسی جماعتوں نے مسترد کیا ہوا ہے ۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ مردم شماری نہ ہونے کے باعث کراچی سمیت اندرون سندھ میں بلدیاتی حلقہ بندیوں کی تشکیل کے موقعے پر کئی اضلاع میں آبادی کم اور ووٹر کی تعداد زیادہ آرہی تھی ۔ کچھ علاقے ایسے بھی ہیں جن کا وجود 1998ء کی مردم شماری میں نہیں ہے تاہم نئی آباد کاری 2011ء کی خانہ شماری کی بنیاد پر یہاں بلدیاتی حلقے تشکیل دیے گئے ، اسی طرح سندھ اور بالخصوص کراچی جو بڑھتی ہوئی آبادی کی زد میں ہے چھٹی مردم شماری کے عبوری نتائج کے مطابق اس کی آبادی کم دیکھنے میں آرہی ہے جب کہ ایک عرصے سے کراچی کی آبادی میں اضافہ ہوتاآرہا ہے۔
کراچی کی آبادی 1998ء کی مردم شماری کے مطابق 98.20700 تھی جس میں سے 8811070کی آبادی شہری حکومت کا حصے میں شامل تھا جب کہ 1009630کی آبادی کنٹومنٹ بورڈ کے حصے میں شامل تھا ۔ 2011ء کی خانہ شماری کے بلاکس کی بنیاد پر انتخابی فہرستوں میں کراچی میں ووٹرز کی تعداد 71لاکھ سے زائد ہے جب کہ الیکشن کمیشن کے مطابق اس وقت شہر کراچی میں رجسٹرڈ ووٹرز 7082319 ان میں سے 40لاکھ سے زائد مرد جب کہ خواتین ووٹرز کی تعداد 301735ہے۔ واضح رہے کہ موجودہ بلدیاتی نظام کے تحت سندھ میں پہلا بلدیاتی انتخابات 5دسمبر 2015ء کو منعقد ہوئے تھے۔
قانون کے مطابق فنڈز کا اجراء آبادی و غربت اور دیگر عوامل کے مطابق کیا جاتا ہے، کراچی میں 1998ء کی مردم شماری کے موقعے پر کئی مقامات پر آبادی کا یا تو وجود ہی نہیں تھا یا آبادی 100افراد سے بھی کم تھی تاہم 16سال کے دوران ہزاروں افراد کی نقل مکانی بالخصوص کراچی کے مضافات میں کئی بستیاں وجود میں آگئی ہیں۔
1998ء کی مردم شماری کے لحاظ سے ضلع غربی میں دیہہ مٹھان کی آبادی صرف 99افراد پر مشتمل تھی تاہم اب یہ گلشن بہار کی توسیع ہے اور ہزاروں افراد رہائش پزیر ہیں، ضلع شرقی میں باغ کورنگی میدانی علاقہ تھا اور آبادی کا کوئی وجود نہیں تھا ، 5سال قبل یہاں ہزاروں افراد کی آبادی ہوچکی ہے ۔ 15سال قبل گلستان جوہر کی میونسپل حدود الہٰ دین پارک سے پہلوان گوٹھ کی آبادی صرف 43ہزار تھی اب یہاں کثیر تعداد میں فلیٹوں کی تعمیر ہونے سے آبادی لاکھوں تک پہنچ چکی ہے ۔ علاوہ ازیں افغان مہاجرین کی ایک بڑی تعداد پاکستانی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ حاصل کرکے پاکستانی شہرت حاصل کرچکی ہے۔
ہر چند کہ پاکستان میں مردم شماری اپنی مقرر کردہ دس سالہ مدت کے عرصے میں کبھی نہیں ہوئی بلکہ ایک سے دوسری مردم شماری کے دورانیہ میں کئی کئی سال کا غیر ضروری وقفہ آتا رہا ۔ اب جب کہ مارچ و اپریل2017ء میں مردم شماری ہوئی ہے تو یہ 19سال کے بعد ہوئی ہے ۔ حکومت اس امر کو یقینی بنائے کہ ہر دس سال بعد مردم شماری کا عمل بلا تاخیر منعقد ہوتا رہے تاکہ ملکی قومی وسائل منصفانہ تقسیم ہو اور ملکی مسائل باآسانی حل ہوسکیں۔