اکثر لوگ ہم سے مملکت اللہ داد نا پرساں کے وئیراباؤٹ کے بارے میں پوچھتے رہتے ہیں حالانکہ ہم کئی بار بتا بھی چکے ہیں کہ اس کا دوسرا نام بلکہ اصل نام مملکت اُلٹ پلٹ ہے یعنی آئینے کے اندر واقع ہونے کی وجہ سے ہر چیز یہاں الٹی ہوتی ہے۔
لیکن یہ بھی تو ایک حقیقت ہے کہ اگر مملکت ناپرساں اُلٹ پلٹ ہے تو اپنی مملکت خداداد پاکستان کو مملکت سوراخ دار یعنی چھلنی یا غربال کہنا چاہیے۔ کیونکہ یہاں کے باشندے بہت زیادہ سوراخ دار ہوتے ہیں، قدرتی نو سوراخوں کے علاوہ ان کی ہتھیلی کے اندر بھی سوراخ ہوتا ہے۔ جیب میں سوراخ ہوتا ہے اور خصوصاً ’’عقل ‘‘ میں سوراخ ہوتا ہے، خیر تو ان سوراخوں کی وجہ سے ان بچاروں کے پاس کچھ بھی نہیں رہتا ۔ اندازہ اس سے لگائیں کہ یہاں اب تک جتنے بھی قرضے آئے ہیں وہ سارے کے سارے ان سوراخوں سے نکل چکے ہیں اور صرف ان کے ’’پر ‘‘ یعنی سود باقی رہ گئے ہیں ،چنانچہ عقل میں سوراخ ہونے کی وجہ سے یہ ہر بار منڈی سے وہی ’’ بیل ‘‘ خریدتے ہیں جو یہ پہلے بیچ چکے ہوتے ہیں اور معمولی سے میک اپ کی وجہ سے اُسی ’’ بیوی ‘‘سے نکاح کرتے ہیں جسے کئی بار طلاق دے چکے ہوتے ہیں۔
اس لیے ہم نے بھی ان کو ’’ معذور ‘‘ جان کر ان کو مملکت اللہ داد نا پرساں کے بارے میں مکمل معلومات فراہم کریں اور اس کی ان کو شدید ضرورت بھی ہے کیونکہ جس قومی پیشے سے وابستہ ہیں یعنی ’’ باتیں کرنا ‘‘ اس میں اب فیس بک اور موبائل میسجز کی وجہ سے بہت زیادہ ترقی ہو چکی ہے، اب تک تو یہ صرف وہ باتیں کرتے تھے جو کرنے کی ہوتی ہیں، پھر موبائل کے ذریعے وہ باتیں بھی کرنے لگے جو کرنے کی ہر گز نہیں ہوتیں لیکن فیس بک کے بعد تو وہ باتیں کرنے لگ گئے ہیں جو ’’سننے ‘‘ کی بھی لائق نہیں ہوتیں، ظاہر ہے کہ اتنے وسیع پیمانے پر باتیں کرنے کے لیے’’ خام مال ‘‘ یعنی موضوعات کی بھی ایک مکمل رینج ہونا چاہیے سو ہم وہی ضرورت پوری کرنے کے چینل ہیاں سے ہواں تک کے شو رسوائے زمانہ ٹاک شو چونچ بہ چونچ میں معلوماتی پروگراموں کا ایک سلسلہ لانچ کر رہے ہیں جس میں مملکت اللہ داد ناپرساں یا مملکت اُلٹ پلٹ سے ’’ماہرین ‘‘ کو بلواکر ہر ہر پہلو کو اجاگر کیا جائے ۔ آج اس سلسلے کا پہلا پروگرا آن ایئر ہو رہا ہے جس میں مملکت ناپرساں سے ہم نے ایک بہت بڑے ’’مہا چور‘‘ کو بلوا یا ہوا ہے اور موضوع ہے مملکت ناپرسان میں چوری کا معزز پیشہ۔
تاریخ کے مطابق مملکت اللہ داد کی تاریخ بھی اس نامی گرامی چوری اور چور سے شروع ہوتی ہے جو چوری کرتے ہوئے دیوار تلے دب کر مرگیا تھا اور لواحقین نے اس مالک دکان کے خلاف نالش داخل کی تھی۔
ویسے بھی مملکت ناپرسان کا دوسرا قومی پیشہ چوری ہی ہے پہلا تو آپ کو پتہ ہے کہ باتیں کرنے باتوں کے طوطے مینے تیتر بٹیر گدھ اور چیل لڑانا ہے۔
پروگرام میں حسب معمول ہماری گردن کے دو پھوڑے علامہ بریانی عرف برڈ فلو ماہر تعویزات و عملیات و طبلاقات و نکا جات اور چشم گل چشم عرف قہر خداوندی ماہر خرافات و بکواسیات و فضولیات بھی مہا چور تھیف آف اسٹیٹ جناب گرہ گٹ کے بارے میں تو آپ جان چکے ہیں اور پروگرام دیکھنے کے بعد ان کو پہچان بھی لیں گے اور مان بھی لیں گے۔
اینکر: ہا ں تو جناب مہا چور صاحب ، چوری کے بارے میں آپ کا کیا
مہا چور: میرا خیال ہے کہ یہ دنیا کی وہ سب سے بڑی مظلوم مخلوق ہے جس کے ساتھ آج تک کسی دور یا ملک میں انصاف نہیں ہوا سوائے مملکت ناپرساں کے۔
علامہ: پھر تو اے قہر خداوندی تم کو بھی وہیں جاکر سیٹل ہو نا چاہیے۔
چشم: تاکہ آپ اکیلے ہی اکیلے اس کاروبار پر چھا جائیں۔
اینکر: تم دونوں اپنے اپنے منہ بند رکھو یا ایک دوسرے کے منہ پر ہاتھ رکھ دو اور جناب مہا چور کو موقع دیں۔
مہا: موقع تو مملکت ناپرسان میں بہت ہیں، میں کچھ اس معزز پیشے کے بارے میں بتانا چاہتا ہوں جس کے ساتھ انصاف نہیں ہوا ہے۔
اینکر: مثلاً
مہا: مثلاً ہر ملک اور ہر دور میں چوروں کو بُرا کہا گیا ہے اور ان لوگوں کو کچھ بھی نہیں کہا جاتا جو چوروں کو چوری پر مجبور کرتے ہیں۔
اینکر : کون۔
مہا: سب سے پہلے تو اس شخص کو قبر سے نکال کر نناوے بار پھانسی دینی چاہیے جس نے ’’تالا ‘‘ ایجادکیا۔
اینکر:کیوں ؟
مہا: اس لیے کہ وہی تھا جن نے زیادہ ہڑپا اور پھر اس نے تالا لگایا کہ اصل حقدار جن سے چھینا گیا ہے وہ اپنا حق لینے نہ آجائیں۔
اینکر: تو اس کا حل ناپرساں والوں نے یہ نکالا کہ چوری کو جرم کے بجائے ایک معزز پیشہ قرار دیا جائے۔
اینکر: اوراس کا نتیجہ کیسا نکلا۔
مہا: بڑا خوش گوار آج پورے مملکت اللہ داد کا ہر باشندہ چور بھی ہے اور لنڈا بھی نہیں ہے بلکہ ہر عہدہ چوری کی مہارت اور کوالفیکیشن پر دیا جاتا ہے، میں خود چار مرتبہ ملک کا بادشاہ بن چکا ہوں لیکن اب میںنے خود ہی انکار کر دیا ہے کیونکہ مجھے اپنا اور اپنے خاندان کا مستقبل بھی تو تانباک بنانا ہے۔