اردو کے ادبی رسائل کے سالنامے یا خاص نمبر شایع کرنے کا آغاز کب ہوا اس کے بارے میں تو کوئی محقق ہی وثوق سے بتا سکتا ہے‘ البتہ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس کا زمانہ بیسویں صدی کی تیسری اور چوتھی دہائی کے سنگم کے ارد گرد متعین کیا جا سکتا ہے لیکن اسے ایک روایت کی حیثیت قیام پاکستان کے فوراً بعد شایع ہونے والے ادبی رسالے ’’نقوش‘‘ سے ملی کہ اس کے مدیر محمد طفیل مرحوم کے (جو اپنے رسالے کی رعایت سے ’’محمد نقوش‘‘ بھی کہلائے جانے لگے تھے) پے در پے مختلف موضوعات کے تحت ضخیم اور انتہائی محنت سے ترتیب دیے گئے خاص نمبر سچ مچ ایک خاصے کی چیز بن گئے، آگے چل کر پاکستان سے فنون‘ اوراق‘ سیپ‘ نیا دور‘ معاصر‘ آثار‘ اجرا‘ افکار ‘تسطیر‘ ادبیات‘ نیرنگ خیال اور بھارت سے سوغات‘ گفتگو‘ استعارہ‘ شعر و حکمت اور بے شمار کچھ عرصہ چھپنے کے بعد بند ہو جانے والے رسائل نے بھی بہت پائے کے سالنامے اور خاص نمبر شایع کیے مگر معیار اور تسلسل دونوں اعتبار سے نقوش کا نام اب بھی پہلے نمبر پر آتا ہے۔ گزشتہ چند دنوں میں اسلام آباد سے ’’لوح‘‘ اور ’’ماہ نو‘‘ کے دو ایسے خاص نمبر سامنے آئے ہیں جو اپنے موضوع‘ مواد ترتیب اور انداز پیش کش کے حوالے سے بیک وقت قابل توجہ بھی ہیں اور لائق تعریف بھی۔
’’ماہ نو‘‘ کا خاص نمبر سرسید احمد خان کے بارے میں ہے جو ان کے دو سوویں سال پیدائش کے حوالے سے شایع کیا گیا ہے جب کہ ’’لوح‘‘ کا خاص نمبر اردو افسانے ایک سو پندرہ سالہ انتخاب پر مشتمل ہے جیسا کہ ادب سے دلچسپی رکھنے والے احباب جانتے ہیں ’’ماہ نو‘‘ ایک ایسا ادبی رسالہ ہے جو حکومت کی براہ راست سرپرستی میں ایک سرکاری ادارے کی طرف سے شایع کیا جاتا ہے اور یوں اس کی عمومی کارکردگی بھی دیگر سرکاری شعبوں جیسی ہی ہے کہ اس کا سائز‘ معیار اور تسلسل تینوں ہی اپنی ابتدا سے خلل پذیر چلتے چلے آ رہے ہیں، کئی بار یہ بند بھی ہوا ہے اور ایک سے زیادہ مرتبہ اس نے اچھے دن بھی دیکھے ہیں، اتفاق سے اس کا یہ حالیہ دور بھی اس اعتبار سے ایک اچھا اور سنہری دور کہا جا سکتا ہے کہ گزشتہ تین برسوں میں اس کے کئی بہت عمدہ خاص نمبر سامنے آئے ہیں۔
شخصیات کے حوالے سے حبیب جالب‘ احمد ندیم قاسمی اور جوش ملیح آبادی کے بعد یہ موجودہ سرسید احمد خان نمبر بطور مثال پیش کیے جا سکتے ہیں۔ ان چاروں نمبروں کا کریڈٹ یوں تو سارے ادارتی عملے کو جاتا ہے لیکن میری ذاتی معلومات اور تجربے کے مطابق اصل داد کے مستحق اس کے نگران اعلیٰ محمد سلیم ہیں کہ ان کی ذاتی دلچسپی اور عملی سرپرستی کے بغیر ایسے عمدہ‘ دقیع‘ خوب صورت ‘ بھاری اخراجات اور نسبتاً کم قیمت والے نمبر شایع کرنا شاید ممکن ہی نہ ہوتا ، یہ مجلہ جو مکمل طور پر عمدہ آفسٹ کاغذ اور فینسی بائینڈنگ کے ساتھ چار رنگوں میں پرنٹ کیا گیا اور جو جہازی سائز کے 538 صفحات پر مشتمل ہے ہر اعتبار سے پڑھنے اور سنبھال کر رکھنے والی چیز ہے۔ سرسید احمد خان کئی اعتبار سے برصغیر کی جدید تاریخ کا ایک اہم حوالہ ہیں۔ تعلیم‘ مذہب‘ سیاست‘ ادب اور صحافت جس طرف سے بھی دیکھئے سرسید احمد خان کا شمار انیسویں صدی کے صف اول کے منتخب اکابرین میں ہوتا ہے، ابتدا میں مولانا الطاف حسین حالی کی سرسید کی سوانح عمری ’’حیات جاوید‘‘ کی مدد سے ان کی جو تصویر پیش کی گئی ہے وہ ایک بہت ہی اچھا انتخاب ہے جب کہ برادرم عقیل عباس جعفری نے اپنی محققانہ کاوش سے مہد سے تابہ لحد ان کی پوری زندگی کے اہم واقعات کو ایک لڑی میں پرو دیا ہے۔
اسی طرح مہاتما گاندھی کے پوتے اور بھارت کے پہلے منتخب صدر راج گوپال اچاریہ کے نواسے راج موہن گاندھی کی کتاب سے کشیدہ اور ترجمہ کی ہوئی سید کاشف رضا کی تحریر ’’سرسید کی کہانی‘ راج موہن گاندھی کی زبانی‘‘ خصوصی توجہ کی مستحق ہے کہ اس کا مصنف ایک معروف اور اہم تاریخ دان ہی نہیں بلکہ برصغیر کی تقسیم کے عوامل پر گہری نگاہ رکھنے والے کچھ غیرمعمولی لوگوں کا تربیت یافتہ بھی ہے۔ دو تین برس پہلے آکسفورڈ یونیورسٹی پریس والوں کے لٹریچر فیسٹیول میں خود مجھے بھی راج موہن گاندھی سے ملاقات اور گفتگو کا موقع ملا تھا اور بلاشبہ ان کے علم و فضل اور شخصیت نے مجھے بہت متاثر کیا تھا۔ مرتبین نے سرسید احمد خاں کی بھرپور‘ طویل اور کہیں کہیں متنازع زندگی اور شخصیت کا احاطہ کرنے کے لیے مندرجہ ذیل عنوانات قائم کیے ہیں۔ سوانح سرسید‘ سرسید عصر حاضر میں‘ سرسید کا نظریہ تعلیم‘ سرسید کا سیاسی فہم‘ سرسید اور صحافت‘ سرسید اور اردو ادب‘ سرسید اور مذہب‘ سید احمد خان‘ اپنی تحریروں کے آئینے میں‘ مجموعی طور پر زیادہ تر مضمون نگاروں نے اپنا کام محنت اور سلیقے سے کیا ہے۔
جہاں تک ’’لوح‘‘ کے تازہ تر خصوصی شمارے کا تعلق ہے‘ اس کے ذکر سے پہلے اس کے مدیر ممتاز احمد شیخ کو شاباش ملنی چاہیے کہ دیکھتے ہی دیکھتے اس اللہ کے بندے نے بغیر کسی بیرونی امداد اور تجربے کے محض ادب کی محبت کے زور پر ’’لوح‘‘ کو ایک ایسے بلند مقام پر لاکھڑا کیا ہے جو کئی نامور اور گہرے ادبی روابط رکھنے والے مدیران کرام اور ان کے جرائد کو عمر بھر میں حاصل نہیں ہو پایا۔ 1120 صفحات پر مشتمل یہ افسانہ نمبر ضخامت کے اعتبار سے گزشتہ تمام شماروں پر بھی بھاری ہے حالانکہ اس میں کئی بڑے افسانہ نگاروں کے تاریخ ساز اور پہچان بن جانے والے افسانوں کی جگہ ان کے بعض نسبتاً کم اہم افسانے منتخب کیے گئے ہیں کہ ان میں سے بیشتر طوالت کے اعتبار سے بہت زیادہ جگہ گھیرنے والے تھے اس کے ساتھ ساتھ ہر افسانہ نگار کا صرف ایک افسانہ اور وہ بھی بغیر کسی تعارفی تحریر یا مضمون کے شامل کیا گیا ہے کہ بقول ممتاز احمد شیخ اگر وہ ایسا نہ کرتے تو اس جیسے کئی اور شمارے بھی کم پڑجاتے۔
اگرچہ انھوں نے زمانی ترتیب کے اعتبار سے ان منتخب افسانوں کو پانچ ادوار میں تقسیم کر دیا ہے اور سنیاریٹی اور ’’مقام‘‘ کے جھگڑوں سے بچنے کے لیے افسانہ نگاروں کے نام بھی حروف تہجی کے اعتبار سے درج کیے ہیں جو یقیناً ایک اچھا اور محتاط فیصلہ ہے لیکن فہرست دیکھنے کے دوران کہیں کہیں یہ خیال ضرور آیا کہ کچھ ناموں کو موجود سے اگلی یا پچھلی صف میں ہونا چاہیے تھا لیکن یہ ایسا معمہ ہے جو کسی بھی حساب سے حل ہو ہی نہیں سکتا کہ بقول تاثیر۔ ’’کچھ اختلاف کے پہلو نکل ہی آتے ہیں‘‘۔ کئی ایسے گمنام اور فراموش کردہ نام بھی نظر سے گزرے جو اپنے زمانے میں پہلی صف میں ہوا کرتے تھے اور اب اتھلیٹکس کی اصطلاح میں آلسو رین کے زمرے میں شمار ہوتے ہیں جب کہ کچھ ایسے بھی تھے جن کو قارئین نے قدرے دیر سے پہچانا اور کچھ وہ بھی کہ جو ’’غربت میں جا کے چمکا گمنام تھا وطن میں‘‘ کی مجسم تصویر رہے۔ممتاز احمد شیخ نے اپنے ابتدائیے ’’حرف لوح‘‘ اور اختتامیے ’’حرف آخر‘‘ میں اس بہت مشکل اور محنت طلب کام کے ضمن میں اپنی رائے اور کاوش کا ذکر بہت عاجزی اور انکسار سے کیا ہے مگر انصاف کی بات یہی ہے کہ انھوں نے نیل کے ساحل سے لے کر تابہ خاک کاشغر اور پھیلے ہوئے ان موتیوں کو جس محنت محبت اور سلیقے سے یکجا کیا ہے‘ اس پر ان کو ساری ادبی برادری کی طرف سے بھرپور داد ملنی چاہیے کہ اگر زبان و ادب کے بارے میں ہمارا اجتماعی موجودہ رویہ اسی طرح جاری رہا تو خدانخواستہ وہ دن بھی زیادہ دور نہیں جب اس طرح کے لوگ ڈھونڈے بھی شاید نہ مل سکیں گے۔